• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اُس نے عمران خان کو لاہور کے حادثے سے بچا لیا۔ سر اور کمر میں کچھ شدید چوٹوں کے باوجود اُن کی جان خطرہ سے باہر ہے اور انشااللہ وہ جلد ہی میدان سیاست میں اُسی طرح سرگرم ہوں گے جیسے وہ اس حادثے سے قبل تھے۔ اس حادثے کاعمران خان کوگیارہ مئی کے الیکشن میں فائدہ ہوگا یا نقصان یہ تووقت ہی بتائے گا مگر میرا ایمان ہے کہ اس میں عمران خان کے لیے اللہ تعالیٰ کی کوئی بہتری ہو گی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کئی بار جن حادثات اور واقعات کو ہم اپنے لیے بُرا جانتے ہیں یا وہ ہمارے ظاہری نقصان کا باعث بنتے ہیں وہ دراصل ہمارے لیے بہتری کا سبب ہوتے ہیں ۔ عمران خان کی سیاست سے کوئی بھی اختلاف کرسکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک نڈر اور باغیرت مسلمان، سچا اور محب الوطن پاکستانی، مخلص رہمنا اورپاکستان کی سیاست میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یابی نصیب فرمائے۔ آمین۔ عمران خان کے زخمی ہونے پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہمناوں نے فوری ہمدردی کا اظہارکیا اور حالیہ سیاسی جنگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی طرف سے خان صاحب کے لیے راولپنڈی کے جلسے میں دعا کروانا اور اپنی الیکشن مہم کو ایک دن کے لیے معطل کرنا بھی خوش آئین تھا۔ الیکشن مہم کے آخری دنوں میں اور انتخابات سے چند روز قبل سیاسی تلخی میں یہ کمی گیارہ مئی کے بعد کی صورتحال کے لیے نیگ شگون ہوسکتی ہے ۔
آج الیکشن کو دو دن باقی رہ گئے ۔ پانچ سال کے بعد اب یہ پاکستانی عوام کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ اُن سیاسی جماعتوں اور سیاسی بہروپیوں سے اپنے ووٹ کے ذریعے انتقام لیں جنہوں نے ان سالوں میں جمہوریت کے نام پر عوام کااربوں روپیہ لوٹا، اس ملک کے اداروں کا ایک ایک کر کے ستیاناس کیا، کرپٹ ترین سزا یافتہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا، لوگوں کو ووٹ مانگتے وقت سنہری خواب دیکھایا مگر جب اقتدار ملا تو انہیں لوڈ شیڈنگ، غربت، مہنگائی، بے روزگاری دہشت گری، ٹارگٹ کلنگ ، امریکا کی غلامی، ڈرون حملے اور کرپشن کے علاوہ کچھ نہ دیا۔ سیاسی مداریوں اور کرپٹ سیاسی جماعتوں نے عوام سے جوکیا اُس کا حساب لینے کا عوام کے پاس ایک واحد ہتھیار ووٹ ہے۔ اگر اس ہتھیارکواستعمال نہ کیا گیا، اگر عوام ووٹ ڈالنے کے لیے بڑی تعداد میں گھر سے نہ نکلے، اگرووٹ ڈالتے وقت اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز نہ کی گئی تو پھر جمہوریت کا یہ فراڈ چلتا رہے گا بلکہ عوام کے نام پر مزیذ ڈھٹائی اور بے شرمی سے آئندہ بھی لوٹ مارہوتی رہے گی۔چاہے ووٹ جس کو مرضی دیں مگر اسلام ، پاکستان اور عوام کے مفاد کو سامنے رکھ کر یہ قومی فریضہ ادا کریں۔ اس گرمی میں کچھ گھنٹوں کی تکلیف، قطار میں کھڑا ہونا، ووٹ ڈالنے کے مسائل کا سامنا کرنا اگر ہم برداشت نہ کر سکے تو پھر پانچ سال روتے رہیں گے، کڑتے رہیں گے، جلتے رہیں گے۔ ایک طرف چند گھنٹوں کی تکلیف اور دوسری طرف پانچ سال کا وہ عذاب جس کا پاکستان نے گزشتہ پانچ سال سامنا کیا۔ میرے خیال میں جو پاکستان اور پاکستانی عوام نے گزشتہ پانچ سال دیکھا اور سہا اگر اُس جیسا ایک اور دور واپس آگیا تو پھر ہمار مستقبل تاریکی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر اب بھی(اللہ معاف کرے) ایسا ہو تو پھر اس کی بڑی ذمہ داری الیکشن کے روز ووٹ کے لیے نہ نکلنے والی عوام پر ہوگی۔ پاکستان میں تقریباً چالیس فیصد لوگ (جن میں اکثریت برادری، رشتہ داری یا شخصیت پرستی کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں) ماضی کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے رہے ہیں جبکہ اکثریت اس عمل میں شریک نہ ہوکر اُس جرم کی مرتکب ہوتی رہی جس کی وجہ سے پاکستان کا آج یہ حال ہے۔اگر اب کی بار بھی اکثریت گھر بیٹی رہی تو پھرکوئی بہتر تبدیلی ممکن نہیں۔
انتخابات کے روز دہشت گردی کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ گزشتہ حکمرانوں کی مہربانی سے دہشت گردی ویسے تو ہمارے لیے روز کامعمول بن چکی ہے مگر الیکشن کے دن دہشت گردی کے واقعات سے ووٹر ٹرن آوٹ کم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں حکومت پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں نجی ٹی وی چیلنز کو ایک ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے کہ کسی ناخوشگوار واقع کے ہونے پر اُس کی اس انداز میں تشہیر نہ کی جائے جو عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بنے اور ووٹر کو گھر سے نکلنے سے روکے۔ اس سلسلے میں پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسیشن کو فوری طور پر پالیسی گائنڈ لائنز جاری کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کرنے والے تو چاہیں گے کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقع کو میڈیا الیکشن کے دن خوب اچھالے جس سے الیکشن کو برباد کیا جا سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں الیکشن کے موقع پر دہشت گردی کے واقعات کاممکنہ حد تک شام پانچ بجے تک بلیک آوٹ کرنا بہتر ووٹر ٹرن آوٹ کے لیے ضروری ہے۔
تازہ ترین