• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں بھی مزاج ایسے ہی ”عاشقانہ“ کے ساتھ ساتھ بھرپور طریقہ سے ”احمقانہ“ بھی تھا۔ ”عاشقانہ“ کی مثالیں پھر کبھی، آج ”احمقانہ“ کی مثال پیش کرتاہوں۔ جب کبھی کسی اکیلے کو زیادہ لڑکوں یا کمزور کو کسی طاقتور سے مار کھاتے دیکھا، رضاکارانہ طور پر لڑائی میں کودگیا اور کئی بار اسی نامراد عادت کے تحت اپنے ”کھنے“ خوامخواہ سِکوا لئے۔ لیکن باز کبھی نہ آیا۔ ایک واقعہ آج تک ہانٹ کرتا ہے۔ ہاکی کے حوالے سے پاکستان کی سٹار فیملی اختر رسول کی ہے۔ خود سپرسٹار کھلاڑی، چاچا غلام رسول مرحوم سپر پلیئر جو اختر کے والد تھے۔ سابق آئی جی پنجاب چاچا امین جنہوں نے بھتیجے اختررسول کو اختر رسول بنایا اور میرے بچپن کا دوست اولمپئن ارشد چودھری جو اختر رسول کا فرسٹ کزن اور بہنوئی ہی نہیں میرا کلاس فیلو اور یار ِ غار بھی ہے۔ 60 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے بچے سے تھے
جب سکول سے چھٹی کے بعد تعداد میں کم لڑکوں کو تعداد میں بہت زیادہ لڑکوں بلکہ سینئر لڑکوں نے بری طرح مارنا شروع کیا۔ میں نے کچھ دیر چھڑانے کی کوشش کی اور پھر کمزوروں کی طرف سے خود بھی اس جنگ میں شامل ہو گیا۔ عملاً میں مار کھانے والوں کی مار ہی شیئر کر رہا تھا کیونکہ مخالف گروپ والے عمر ہی نہیں تعداد میں بھی کہیں زیادہ تھے۔ جنگ عروج پرتھی کہ اچانک ارشد چودھری اپنی ہاکی سمیت ”میدانِ جنگ“ میں کودا اور چشم زدن میں کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ میرا بہتا خون دیکھ کر ارشد چودھری کی آنکھوں میں خون اتر ا ہوا تھا۔ لڑائی ختم ہوئی تو مارنے والے بھی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور مار کھانے والے بھی تتربتر ہوگئے۔ ارشد چودھری نے پوچھا… ”یہ کون تھے؟“ میں نے کہا ”مجھے کیا معلوم“… ”تو پھر تو یہاں کیا کر رہا ہے؟“ ”کچھ نہیں زیادتی ہو رہی تھی پہلے میں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی پھر تنگ آ کر میں نے بھی ماڑوں کی طرف سے لڑنا شروع کردیا۔“ ارشد جسے ہم تب سے اب تک پیار سے ”چھاوا“ کہتے ہیں ایسا دوست ہے کہ جب انگلینڈ کے ہیتھرو وغیرہ پرپی آئی اے کا باس تھا، تب بھی وہاں میرا کیا میرے دوستوں کا بھی لمحہ لمحہ خیال رکھتا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ پرویز مشرف ہو یا پیپلزپارٹی… میں طبعاً ہر کمزور کے حق میں ہوں۔ میرا پورا عطا الحق قاسمی اور پونا عرفان صدیقی اس بات کی گواہی دیں گے کہ شریف خاندان کی شدید ترین مخالفت ان کے عروج میں ٹھوک کر کی لیکن جب یہ Under clouds اورزیرعتاب آئے تو مخالفت کیا ان کے حق اور ہمدردی میں ہی لکھا۔ سو آج اگر چند حرف ”ہاری“ ہوئی پیپلزپارٹی کے حق میں لکھ رہا ہوں تو اسے میری ”بری عادت“ سمجھ کر معاف کردیں کہ میں کسی کو بھی زیادہ دیر ”زیرعتاب“ نہیں دیکھ سکتا۔ عتاب چاہے عوام کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے بھی حقائق کی روشنی میں ”اتنی بھی وہ بری نہیں“یہ بات تو خود صدر زرداری بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ اس بار پیپلزپارٹی ”عوامی“ اور ”اقتصادی“ حوالوں سے بہت ہی ”نکھد“… ”نالائق“ اور ”ناکام“ ثابت ہوئی ہے۔ میں اردو ہسٹری، پولٹیکل سائنس نہیں رسمی طور پر اقتصادیات کا طالب علم ہوں جو ایڈنبرا جائے تو ایڈم سمتھ کی قبر پر بھی حاضری دیتا ہے یعنی اپنے ہم عصروں میں اکانومی کی شدھ بدھ نسبتاً کچھ زیاد ہ ہے اور پیپلزپارٹی اسی اہم ترین شعبہ میں بری طرح ناکام رہی۔ جہاں تک تعلق ہے ”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کا تو میرے نزدیک یہ بھی ”پیلی ٹیکسی“ … ”سبز ٹریکٹر“… ”سستی روٹی“… ”دانش سکول“… ”آشیانہ“ اور ”میٹروبس“ وغیرہ کی طرح عوام کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لیکن باقی معاملات میں بے شک پیپلزپارٹی نے وہ وہ کچھ کیا ہے جس کا کوئی اور ”جمہوری“ حکومت تصور بھی نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جہالت اور اس کے نتیجہ میں جذباتیت کی فراوانی ہے۔ اسی لئے فوری طور پر تو نہیں لیکن آئندہ کا مورخ پیپلزپارٹی کو پاکستان کے حقیقی محسن کے طور پر یاد کرے گا کیونکہ اس کے بہت سے فیصلے اور اعمال پاکستان کے مستقبل پر انتہائی مثبت انداز میں اثراندازہوں گے۔ہماری ذہنیت، تربیت، تاریخ اور کلچر ایسا ہے کہ پٹواری بھی اپنے اختیارات میں کمی برداشت نہیں کرتا جبکہ پی پی پی حکومت نے حیران کن طور پر 1973 کے آئین کی بحالی کا راستہ اختیار کرکے تمام تر اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کردیئے لیکن اس فیصلہ کو سمجھنے اور ستائش کرنے کے لئے جیسی دانش اور جیسا ظرف درکار ہے وہ ہر کسی کومیسر نہیں لیکن مستقبل کا مورخ بخل سے کام نہیں لے گا۔ججوں کی تعیناتی کے شفاف نظام سے لے کر آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل اور آزاد چیف الیکشن کمشنر کی تقرری تک پی پی پی کے علاوہ شاید ہی کوئی اور سیاسی پارٹی ایسا فیصلہ کرسکتی۔پھر این ایف سی ایوارڈ کی تاریخ ساز متفقہ منظوری سے لے کر اس کے تحت وسائل کی تقسیم تک… فرنٹیئر کے نئے نام کی دیرینہ چخ چخ ختم کرنے سے لے کر گلگت و بلتستان کو صوبے کا سٹیٹس دینے اور فاٹا میں فرسودہ نظام کے خاتمہ تک پیپلزپارٹی نے پانچ سال میں میکرو لیول کے جو فیصلے کئے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ پارٹی پرسیپشن Perception کا کھیل ہار گئی۔ پیپلزپارٹی کے کنکر بھی پہاڑ بنا دیئے گئے۔ن لیگ کے پہاڑ بھی کنکر بلکہ ہیرے جواہر بنا کر پیش کردیئے گئے۔ وہ تو اوپر والا مہربان تھا کہ پسپا ہوتے ہوئے عمران خان میں جان ڈال دی ورنہ یہ خاندان… یہ میاں برادران پاکستان کی گردن پر مسلط ہو جاتا اور بات پھر 12اکتوبر تک جا پہنچتی۔کاریگر لوگ ہیں ”زر بابا چالیس چور“ کے شور سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے جبکہ رحمن ملک ان کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت لئے للکا ر رہا ہے اور یہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے۔ پیپلزپارٹی کے جو چند تاریخ ساز کام میں نے اوپر گنوائے اس کے علاوہ گوادر پورٹ اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی مستقبل قریب کے لئے عظیم تحفہ ہے لیکن وہ پراگندہ ذہنیت جس نے بینظیر بھٹو کے 24000 میگاواٹ بجلی والے منصوبے کو سبوتاژ کیا… آج ایران پاکستان گیس منصوبے کی چیرپھاڑ کے لئے بھی دانت تیز کر رہی ہے۔فرماتے ہیں اقتدار میں آ کر ازسر نو اس کا جائزہ لیں گے… بہرحال جو بھی ہو پیپلزپارٹی کا ری وائیول نوشتہ ٴ دیوار ہے بشرطیکہ بلاول کو سائنٹفک طریقہ سے لانچ کیا گیا۔عنوان میں نے ایک گیت سے اُدھار لیا ہے:
عرض ہے یہ گلہ نہیں سمجھا ہے جتنا آپ نے اتنا تو میں برا نہیں (اتنی تو وہ بری نہیں)پیپلزپارٹی کے ووٹر سپورٹر کو اتنا Defensive ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ… ”اتنی تو وہ بری نہیں“ نوازشریف کے 99ء والے دور سے بہرحال پی پی پی کی یہ حکومت کہیں بہتر تھی۔
تازہ ترین