• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے مسئلے پر ایک اہم پیش رفت پیرکو اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم ہا ئوس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں طے پایا کہ مجوزہ تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل اس کے سربراہ کے تقرر، دائرہ کار اور دوسرے پہلوئوں پر چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے مشاورت کی جا ئے گی اور انہیں ا عتماد میں لے کر اس ضمن میں حتمی قدم اٹھایا جا ئے گا۔ وزیراعظم نواز شریف، جو لندن میں طبی معائنے کے بعد فوری طور پر واپس آرہے ہیں، کی توثیق کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد شروع ہو جا ئے گا۔ وزیراعظم نے یہ معاملہ منظر عام پر آتے ہی قوم سے اپنےخطاب میں ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن سے اس کی تحقیقات کرانے کا ا علان کردیا تھا مگر یہ اعلان ا پوزیشن کو ا عتماد میں لئے بغیر کیا گیا اس لئے اس پر اتفا ق رائے نہیں ہو سکا اور حکومتی اتحادیوں کے سوا تقریباً تمام پارٹیوں نے اسے مسترد کردیا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت تو وزیراعظم کے مجوزہ کمیشن کو ہی تحقیقات کی ذمہ داری سونپنا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمانی کمیٹی سے معاملے کی تحقیقات کرانا چاہتی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ کمیٹی کا سربراہ اپوزیشن سے بنایا جائے اس نےا پنی تجویز کی حمایت میں اتفاق رائے حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی چار رکنی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ تحریک ا نصاف چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام پر زور دے رہی ہے۔ تاہم اس نے اب پارلیمانی کمیٹی کی حمایت بھی کر دی ہے۔ حکومت نے سیاسی جماعتوں ا ور وکلا کی تنظیموں سے مشاورت کا جو فیصلہ کیا ہے اس کا مقصد بظاہر وزیراعظم کے پہلے سے اعلان کردہ کمیشن پر اتفا ق را ئے حاصل کرنے کیلئے ہے لیکن معروضی حالات میں اسے مشاورت کا دا ئرہ بڑھا کران تمام تجاویز پر بحث مباحثہ اور غور و فکر کی راہ کھولنا ہو گی جو مختلف سیاسی و قانونی حلقے پیش کر رہے ہیں۔ ان میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی تجاویز سرفہرست رکھنا ہوں گی اور ا ٓخری فیصلہ سب کی رضا مندی پر چھوڑنا ہو گا۔ا س وقت ا ٓف شور کمپنیوں میں ملکی سرمائے کی منتقلی کے طریقوں اور ا س سرمائے کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال پر پاکستان ایک بحران سے گزر رہا ہے یہ سیاستدانوں کے تدبر کے امتحان کا وقت ہے۔ اہل سیاست کے تدبر اور عقل و دانش کا امتحان بحرانوں ہی میں ہوتا ہے۔ ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہو، معاشی ابتری ہو یا اخلاقی زوال، اس طرح کے بحرانوں میں ہی سیاستدانوں کی صلاحیتوں کی اصل آزمائش ہوتی ہے۔ ان کی اہلیت کا پیمانہ محض اقتدار کا حصول نہیں بلکہ بحرانی حالات میں قوم کو مشکلات سے بچانا ہے۔ حکمران پارٹی ہو یا اپوزیشن جماعتیں، پاناما لیکس کا مسئلہ سب کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہے اس لئے سیاستدانوں کو اس وقت بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ اس معاملے میں صرف وزیراعظم کے خاندان کے نہیں، تقریباً ڈھائی سو افراد کے نام ہیں جنہوں نے آف شور کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں یا ان میں حصہ دار ہیں۔ ایسے لوگوں میں اپوزیشن پارٹیوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ اس لئے سیاسی پارٹیوں کو مل جل کر ایسا آزاد اور غیرجانبدار کمیشن یا کمیٹی قائم کرنی چاہیئے جس پر سب کا اتفاق ہو اور جو سب کیلئے قابل اعتبار ہو۔ اس مقصد کیلئے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے یا تمام پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں۔ اس سے حکومت کی ساکھ بحال ہو گی۔ ایسا کمیشن قائم کرنےسے جسے کوئی مانے ا ور کوئی نہ مانے ،حکومت پرعوام کا اعتماد بحال ہو گا نہ اس کی تحقیقات سود مند ہوں گی۔ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا سارا زور ایک بہتر اور متفقہ کمیشن کے قیام پر لگائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ماضی میں دہشت گردی سمیت کئی اہم مسائل پر اتفاق رائے سے مشترکہ لائحہ عمل اپنا چکی ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے قومی مفاد پیش نظر رکھ کر وہ افہام وتفہیم سے اس مسئلے کا بھی متفقہ حل نکال سکتی ہیں۔
تازہ ترین