• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدور میں ایک خوبصورت روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داری سے فارغ ہونے کے بعد بالعموم اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں قوم اور دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

 اِس سے جہاں اُنہیں مالی فائدہ پہنچتا ہے وہیں تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے حقائق کے بہت سے خفیہ گوشے عامۃ الناس کے سامنے آتے ہیں۔ 

یوں ماضی سے مستقبل کی طرف بڑھتے ہوئے یہ تفصیلات ذہن سازی یا بہتر تفہیم میں معاونت کرتی ہیں، اِس بہتری میں صدارتی مدت دو دورانیوں تک محدود رکھنے کی سوچ کا اعجاز و فیضان بھی ہے۔ 

سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما کی کتاب A Promised Land حال ہی میں شائع ہوئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اُس کی کوئی 5ملین کاپیاں تیار کی جا رہی ہیں، اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود مغرب میں کتاب بینی کا ذوق کس قدر ہے۔ 

اوباما نہ صرف پاپولر ووٹ کے ساتھ جیتا بلکہ اپنی صدارتی ٹرمزمیں اتنا پاپولر رہا کہ اگر تیسری ٹرم کی قدغن نہ ہوتی تو وہ اس مرتبہ بھی اپنی ہردلعزیزی کا لوہا منواتا۔

 دیکھا جائے تو جوبائیڈن کی حالیہ جیت کے پیچھے بھی اوباما کی پاپولر شخصیت، کارکردگی اور جدوجہد کا ہاتھ ہے۔ 

اوباما نے اگرچہ 2مئی 2011 کے خطرناک آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے یہ وضاحت کی ہے کہ اُن کے نائب صدر جوبائیڈن اور ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ گیٹس اُس کے حق میں نہیں تھے اور اُنہوں نے اِس مشن سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی تھی، شاید اِسی لئے وہ اپنی کتاب 3نومبر کے بعد منظر عام پر لائے ہیں تاکہ جوبائیڈن کی مقبولیت کو انتخابی معرکے میں نقصان نہ پہنچے۔ 

بہرحال اُنہوں نے تورا بورا کی کہانی، ایبٹ آباد کی پُراسرار، وسیع عمارت تک تفصیلاً بیان کی ہیں۔ 

پاکستانی حکومت نے اگرچہ دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائیوں میں مدد کی تھی اور افغانستان میں امریکی افواج کو نیٹو سپلائی کا راستہ بھی فراہم کیا تھا مگر صدر اوباما نے اسلام آباد سے اپنی معلومات شیئر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

صدر باراک اوباما نے اپنی کتاب میں اِس پراسرار اور خطرناک آپریشن کی پوری تفصیل بیان کی ہے، اپنے دونوں آپشنز کا بھی بتایا ہے اور یہ بھی کہ کامیابی کے بعد اُنہوں نے جن مختلف عالمی رہنمائوں کو ٹیلی فون کالز کیں، اُن میں اُس وقت کے پاکستانی صدر زرداری بھی شامل تھے۔ 

خدشہ تھا کہ اپنی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی پر اُن کا ردِعمل خاصا منفی ہو سکتا تھا لیکن مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب اُنہوں نے مجھے اِس کامیاب آپریشن پر مبارکباد دی اور اپنے حقیقی جذبات کا اظہار کیا کہ اِن دہشت گردوں نے میری شریک حیات پرائم منسٹر بینظیر بھٹو کو کس طرح قتل کیا تھا۔

 بہرحال امریکی صدر نے ایک عرب حکمران کی مشاورت پر جس نے مشورہ دیا تھا کہ اِس ہائی پروفائل دہشت گرد کی لاش کو سمندر کی نذر کر دیا جائے۔ اِس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے درویش کے ذہن میں یہ سوال ضرور اُبھر رہا ہے کہ پھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا جرم کیا تھا؟

نائن الیون اور اسامہ کے خلاف آپریشن کے کچھ عرصہ بعد پاکستان کے حالات میں اگرچہ کافی بہتری آئی ہے لیکن افغانستان میں سناریو کافی حد تک اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔

بالخصوص ٹرمپ نے بشمول افغانستان مختلف خطوں کیلئے جو غیرذمہ دارانہ پالیسی اپنائے رکھی، اس سے جہاں امریکہ کے عالمی وقار پر ضرب لگی وہیں امریکہ کے عالمی کردار یا مثبت پہلو میں کمی آئی۔ امنِ عالم کے لئے عالمی قیادت و امامت کی ذمہ داری بہرحال اپنی قیمت وصول کرتی ہے۔

 اب اس کو جواز بنا کر دہائیوں کی جدوجہد اور محنت کا تیاپانچا نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایران یا کسی طرف بھی نئے محاذ کھولنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ پہلے سے جو محاذ چل رہے ہیں، مطلوبہ ہدف کے حصول تک افراتفری میں اپنے کیے پر پانی نہ پھیرا جائے۔

کسی شدت پسند گروہ سے یکطرفہ معاہدے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا جب تک کہ افغان انتظامیہ کو بھی تیسرے باضابطہ فریق کی حیثیت سے مطمئن نہ کیا جاتا اور ہتھیار پھینکنے کی شرط کو منوا نہ لیا جاتا۔ 

اس سلسلے میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی تشویش کو ایک مرتبہ پھر کھلی آنکھوں سے پڑھیں اور 15جنوری کا جو بھی پلان ہے، نئی امریکی انتظامیہ کو اس کا جائزہ لینے دیں ویسے امریکی سسٹم میں اس نوع کا اہتمام ہونا چاہیے کہ جو صدر نومبر کے پہلے منگل کو الیکشن ہار جائے وہ 20جنوری تک وائٹ ہائوس میں رہتے ہوئے جوہری نوعیت کے اقدامات نہ کر سکے۔

 ان حالات میں صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کا تعاون کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین