• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھنو کے نواب سعادت علی خاں نے سید انشاء اللہ خاں انشاء کے باب میں کہا ”انشاء جب کہتا ہے ایسی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو ، نہ سنی ہو“۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن عصر حاضر کے انشاء اللہ خان انشاء ہیں ۔ کراچی کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ ملک لبرل لوگوں کے لئے نہیں بنا… جنہیں لبرل بننے کا شوق ہے وہ اپنا نام اقلیتوں میں درج کرائیں“۔ جماعت اسلامی پاکستان کی قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ فکری اختلاف اپنی جگہ لیکن ہمارے تمدنی مکالمے میں جماعت اسلامی نے قابل قدر حصہ ڈالا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی اردو زبان میں استدلالی نثر کے صورت گر تھے۔ اورنگ آباد کی خاک سے اٹھنے والے سید مودودی دہلی کے لہجے میں موتی رولتے تھے۔ ان کے مخالف بھی ان پرغیرشائستہ طرز گفتار کا الزام نہیں دیتے تھے۔ اپنی سوچ میں راسخ مگر ایسے وسیع القلب کہ جیل میں فیض احمد فیض سے صحبت رہی۔ 50ء کی دہائی میں سول لبرٹیز یونین میں بھی شامل رہے۔ جماعت اسلامی وہی ہے مگر وقت کی رفتار دیکھو کہ اب ہمیں سید منور حسن سے واسطہ ہے،کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی۔
انتخابی مقابلے کی گرما گرمی کو فتوے کی سطح تک بلند کرنا جمہوری عمل کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ یوں ہر فرد کو اختیار ہے کہ اپنی انفرادی رہنمائی کیلئے ،جس شخص سے چاہے ہدایت حاصل کرے لیکن یہ ہدایت کسی تیسرے شہری کے لئے حکم کا درجہ نہیں رکھتی۔ ریاست میں یہ قوت نافذہ صرف ملکی قانون کے تحت قائم ہونے والی عدالت کو حاصل ہے۔ سیاست ایک اجتماعی عمل ہے اور اس میں فتوے کو دخل دینے سے تفرقہ اورقطبیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلم تاریخ میں شام کے دربار سے دہلی کے تخت تک اور جامعہ الازہر سے مدرسہ دیوبند تک، فتوؤں کی داستان طویل اور عبرت ناک ہے۔ یادش بخیر! اپریل 1970ء میں بھی پاکستان کے113 مذہبی پیشواؤں نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان میں سے بیشتر پیشواؤں کے نام اب اسی حوالے سے ہماری تاریخ کے حاشیے میں شامل ہیں کہ انہوں نے اس فتوے پر مہر ثبت کی۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ 70ء کی دہائی میں فتوؤں کی سیاست نے ہمارے اجتماعی ارتقاء پر کیا اثرات مرتب کئے۔ آج نظریاتی اعتبار سے ہماری سیاست برج سکون میں ہے۔ مختلف سیاسی گروہ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ایسا قطعی لہجہ اور استخراجی رویہ اختیار کرنے سے بیجا تلخی پیدا ہوتی ہے۔
لبرل ہونا مذہبی عقائد یا شناخت کا معاملہ نہیں ہے ۔ سادہ سی بات ہے، ہمارے کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے ہم وطنوں کے معاشی ، تمدنی اور ثقافتی امکانات کی حدود طے کرنے پر اجارہ حاصل ہے اور یہ بلند درجہ انہیں اس لئے نصیب ہوا ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے زیادہ پارسا اور عقلمند سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بہت سے ایسے شہری بھی موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ معاشرتی ارتقاء کی حرکیات کو کسی گروہ کی سوچ کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ تمام شہری ووٹ کے ذریعے اپنی حکومت چننے کا حق رکھتے ہیں اور پارلیمینٹ قانون سازی کے ذریعے قومی مستقبل کے خدوخال طے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ دوسرا گروہ سیاسی اصطلاح میں لبرل کہلاتا ہے۔
قومی ریاست میں اقلیت کسی قائم بالذات آئینی تصور کا نام نہیں۔ مختلف گروہوں کے درمیان عددی تناسب کو آئینی تحفظات کے ذریعے معاشی، سیاسی اور سماجی توازن بخشنے کی مساعی کے نتیجے میں اکثریت یا اقلیت کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر مسلمان دنیا بھر میں کہیں بھی رہتا ہو مسلمان ہی کہلائے گا، یہی اس کی حقیقی مذہبی شناخت ہے۔ وہی مسلمان پاکستان یا عراق میں عددی اعتبار سے اکثریت ہے تو روس یا ہندوستان میں اقلیت ہے، بنیادی مذہبی شناخت تو مسلمان ہونا ہے۔ اکثریت یا اقلیت کا تصور متعلقہ قومی ریاست کے تناظر میں طے پاتا ہے۔ صاحب یہ تو ہمارے سیاسی ارتقاء کی ستیزہ کاری ہے ورنہ بین الاقوامی قانون میں اقلیت کی اصطلاح محض مذہبی شناخت تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں لسانی، ثقافتی اور نسلی اعتبار سے بھی اکثریتی اور اقلیتی گروہ موجود ہیں۔
جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی مساوات ہے، اکثریت کا استبداد نہیں۔ جمہوریت میں کثرت رائے کا اصول فیصلہ سازی کیلئے ایک طریقہ کار کا نام ہے۔ جمہوریت میں مستقل اکثریت یا مستقل اقلیت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ 1997ء کی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ 2008ء کی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز اقلیت قرار پائی۔ 2013ء میں رائے دہندگان کا فیصلہ آنے کو ہے۔ کوئی سیاسی جماعت کامیاب ٹھہرے گی تو کوئی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ جیتنے والے فاتحین نہیں کہلائیں گے، عوام کی امانت کے حقدار ٹھہریں گے۔ انتخاب ہارنے والوں کا بال بچہ کولہو میں گھان نہیں کیا جائے گا۔ جیتنے اور ہارنے والے بدستور پاکستان کے شہری رہیں گے، ان کا رتبہ اور حقوق ایک جیسے ہوں گے۔ صرف یہ کہ اگلے پانچ برس کیلئے ایک گروہ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے گا اور دوسرا گروہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے گا ۔ سیاسی عمل میں اکثریت اور اقلیت کی کہانی فقط اتنی ہے۔
سید منور حسن ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر کفر کا الزام دھر رہے ہیں۔ برادر عزیز، جدید ریاست میں کفر کی اصطلاح استعمال نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک مذہبی تصور ہے۔ ریاست سیاسی بنیاد پر طے پانے والے ایک عمرانی معاہدے کا نام ہے ۔ پاکستان کے آئین میں کافر کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ یہ بھی تو دیکھئے کہ اس بیان میں سید منور حسن گویا تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق میسر نہیں ہیں۔ اقلیتی شہری ہونا گویا سزا اور تادیب کا کوئی درجہ ہے جس کی آپ اپنے سیاسی مخالفین کو چتاؤنی دیتے ہیں۔
اگر انتخابی نتائج کی ممکنہ تصویر میں جماعت اسلامی کا نام و نشان نہیں تو حوصلہ کیجئے۔ یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا، انتخابی ناکامی آپ کے لئے کونسی نئی بات ہے۔ 1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات کے دوران آپ کی فکری جولانیوں کا پہلا امتحان ہوا۔ آپ ووٹ اور امیدواری کی فقہی نکتہ طرازیوں میں الجھ کے رہ گئے۔ 1970ء میں آپ تین نشستیں جیتے۔ اگلے چوبیس برس تک جماعت اسلامی کو اپنے بل پر انتخابی میدان میں اترنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ 1993ء میں مرحوم قاضی حسین احمد نے اسلامی محاذ کی کھپریل کھڑی کی۔ نعروں اور نغموں کا خوب رنگ باندھا مگر نتیجہ یہ کہ کل چار نشستیں آپ کے ہاتھ آئیں۔ 1985ء اور پھر 2002ء میں آمریت کی چھتر چھایا میں ہونے والے انتخابات کے دوران آپ کی عروق مردہ میں نئی امنگ دوڑی مگر آپ کی انتخابی کامیابی دہرے ہندسے تک نہ پہنچ سکی۔
2008ء میں آپ میدان ہی میں نہیں اترے۔ 2013ء میں میلہ سجا تو آپ کی اہمیت یہ رہی کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے آپ کا بوجھ اٹھانے سے انکار ہی میں بہتری جانی۔ پورے ملک میں شاید ہی کوئی قومی حلقہ ایسا ہو جہاں آپ کے امیدوار کی کامیابی یقینی بتائی جا سکے ۔ امکان یہی ہے کہ غیر صالحین اس مرتبہ بھی عوام کی تائید جیتنے میں کامیاب رہیں گے۔ بھائی منور حسن، اگر پاکستان کے لوگوں کی رائے کوئی وزن رکھتی ہے تو پھر آپ اقلیت میں ہیں، تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام۔
تازہ ترین