• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصلے کا دن قریب آ گیا ہے۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب سب کو پتہ چل جائے گا کہ اقتدار کی دیوی نے کس سے منہ موڑا اور کس کے گلے میں فتح کی مالا پہنائی، مگر تجسس کے مارے بے صبرے لوگ سوئمبر کی باقاعدہ رسم سے پہلے ہی جان لینا چاہتے ہیں کہ 11 مئی کو کیا ہونے والا ہے، کوئی گھر یا دفتر میں ملنے آئے، سرراہ کسی سے آمنا سامنا ہو جائے یا کسی کا فون آئے، سلام دعا، مصافحے معانقے یا حال احوال کی بجائے سب سے پہلے یہی پوچھتا ہے کہ کون جیتے گا؟ کون ہارے گا؟ شیر کا کیا حال ہے تیر کی رفتار کتنی ہے، بلا رنز اگلے یا نہیں، کتاب، ترازو، لالٹین، پتنگ وغیرہ کی اوقات کیا ہے؟ اب ہم نجومی نہیں کہ اٹکل پچو سے سب کو مطمئن کر دیں، تیر تکے سے کام چلانا بھی خلاف مصلحت ہے کہ میڈیا نے دنیا کو بہت سیانا کر دیا ہے۔ آر پار کی ماریں گے تو بطور صحافی سب سے باخبر ہونے کی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ ”سوالی“ کرید کرید کر ایسے سوال پوچھتا ہے کہ عزت سادات بچانا مشکل ہو جاتی ہے، جن ملکوں میں جمہوریت بالغ ہو چکی ہے سیاسی پارٹیاں نظریات کی بنیاد پر بنتی ہیں اور سیاستدان محض کرسی کیلئے نظریے بدلتے ہیں نہ پارٹیاں، وہاں انتخابات ایشوز پر لڑے جاتے ہیں اور ایشوز ہی رائے عامہ کے رجحانات کی تشکیل کا پیمانہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان پر اس ”بدعت“ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہاں سیاسی پارٹیوں کے پاس نعرے تو بہت ہیں نظریہ کوئی نہیں، یہاں پارٹیاں عموماََ نظریات نہیں شخصیات کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ ان کے منشور مستقل قومی مفادات کی بجائے ذاتی گروہی اور وقتی مصلحتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کسی کی اٹھان اصول اور نظریے کی بنیاد پر ہو اور عوام اس کے پیچھے جمع ہونے لگیں تو سرمایہ دارانہ نظام کے’ بڑے‘ فوراََ اس پر اپنا دست شفقت رکھ دیتے ہیں تاکہ کوئی "کمی کمین" اقتدار کی سیڑھیوں کو نہ چھو لے، ایسی ’انقلابی ‘پارٹیوں کے قائدین کو بھی اقتدار کیلئے ان بااثر لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے دروازے بخوشی ان کیلئے کھول دیتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں یا چھوٹی موٹی سیکولر پارٹیاں نظریات کی پاسداری کا دعویٰ کر سکتی ہیں مگر اجارہ دارانہ سیاست ان کا حلقہ اثر محدود کر دیتی ہے۔ انتخابات کے کھیل کے بڑے کھلاڑی بھی جاگیردار، وڈیرے، نواب، سردار، خان، ملک، سرمایہ دار، پیر اور گدی نشین ہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں قومی درد رکھنے والے اصول پرست لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جن کے مفادات اور مصلحتیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی ان کی وفاداریاں بھی۔ آج ایک پارٹی میں ہیں تو کل دوسری اور پرسوں تیسری میں ہوں گے، اگر سیاسی پارٹیوں کا کوئی اصول اور نظریہ ہو اور یہ لوگ اس اصول اور نظریہ کی بنیاد پر اس میں شامل ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی نظام مضبوط اور مستحکم نہ ہو، آمروں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے موقعے ملے اور ملک میں سیاسی لوٹوں کا میلہ لگا ہو۔
11 مئی کے انتخابات کے حوالے سے قوم بڑی پُرامید ہے اور ملک میں ایسی تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے جو اس کی امنگوں اور آرزوؤں کی نقیب ثابت ہو۔ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا گناہ ہے مگر کیا کیجئے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بھی کوئی تبدیلی آتے دکھائی نہیں دیتی۔ پچھلے 65 سال کے تجربات کے پیش نظر یہ پیش گوئی ناممکنات میں سے نہیں کہ اس مرتبہ بھی وہی لوگ اور اگر وہ نہیں تو ان کے چاچے، مامے، بھانجے، بھتیجے، بیویاں، بیٹیاں اور اگر وہ بھی نہیں تو ان کے حمایت یافتہ رہنمایان کرام ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے جو گزشتہ انتخابات میں پہنچتے رہے ہیں۔ یعنی ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا۔ پھر تمام جاگیر داروں سرمایہ داروں اور دولت وثروت میں کھیلنے والے دوسرے لوگوں کی نظریہ ضرورت کے تحت آپس میں رشتہ داریاں قائم ہیں جو ایک دوسرے کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔
یہ ایک خاندان کی مانند ہیں اور سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ پرانے وقتوں میں موروثی بادشاہتیں ہوتی تھیں۔ جن میں باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہوتا تھا آج موروثی جمہوریت کا دور ہے جس میں باپ بیٹے بیٹیاں بیویاں بہوئیں داماد سمدھی سمدھنیں سب عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایک ساتھ تخت پر بیٹھتے ہیں۔ عوام انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہیں کیونکہ ایسا نہ کریں تو انہیں تھانے کچہری اور پٹوارخانوں کے ایسے چکروں میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ ساری عمر ان سے باہر نکل نہیں پاتے۔ ملک میں جو 58 فیصد لوگ غربت کے نچلے درجے میں گل سڑ رہے ہوں وہ ان کا مقابلہ کرنے سے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ تاہم تعلیم کی شرح کسی قدر بڑھنے سے لوگوں کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے اور موروثی سیاسی خاندانوں سے باہر کے کچھ سر پھرے بھی منتخب ہونے لگے ہیں۔ مگر ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی کوئی نہیں سنتا۔ اسمبلیوں میں پہنچ کر عوام کی توقعات پر پورا نہ اترنے کا دکھ انہیں اور پریشان کردیتا ہے۔ اجارہ دارانہ سیاست گری کے اس ماحول میں یہ توقع رکھنا کہ موجودہ انتخابات کے نتیجے کوئی انقلاب کوئی تبدیلی آئے گی محض دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کم یا زیادہ اسی طرح جاری رہے گی۔ مہنگائی یونہی بڑھتی رہے گی۔ بے روزگاری ویسی ہی رہے گی جیسی اب ہے۔ معیشت میں بہتری کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی۔ باقی حالات بھی کم وبیش جوں کے توں رہیں گے۔ البتہ جمہوریت کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا نے اس پر شب خون مارنے کا سلسلہ روک دیا ہے۔ ان حالات میں قوم کوئی حقیقی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے تمام خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا ووٹ ایسے لوگوں کے حق میں استعمال کرنا ہوگا جو بے شک جاگیردار‘ سرمایہ دار اور گدیوں کے مالک بھی ہوں مگر اپنے سینوں میں درد مند دل اور غریب اور بدحال عوام کے لئے کچھ کرگزرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ ورنہ کوئی جیتے کوئی ہارے عوام کی صحت پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔
تازہ ترین