• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ سمیت پاکستان کے لاکھوں عام شہری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انہوں نے اپنے علاقے کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر کو گزشتہ عام انتخابات کے بعد اپنے علاقے میں کبھی نہیں دیکھا ہوگا ، بلاشبہ حکمراں طبقے کا یہ گروہ ہماری قوم کا وہ برساتی طبقہ ہے جوصرف انتخابات کے دنوں میں ہی منظر عام پر آتا ہے اور انتخابات کے دوران ہونے والے جلسے اور جلوسوں پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتاہے، عوام سے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور الیکشن میں کامیابی کی صورت میں اگلے پانچ سال کے لئے ایسے غائب ہوتا ہے کہ صرف اخباروں یا پارلیمینٹ ہاؤس میں ہی نظر آتا ہے جبکہ ہر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ان ممبران کو ہر سال ملنے والے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈزکا کم سے کم پچاس فیصد بھی ان نمائندوں کی ذاتی ملکیت میں تبدیل ہوجاتا ہے جو غیر قانونی طور پر ان کا قانونی حق سمجھا جاتا ہے ،جنرل مشرف دور میں لاکھ برائیاں سہی مگرچند اقدامات ایسے بھی تھے جن کو سراہا جانا ضروری ہے ،جن میں سب سے اہم بلدیاتی نظام کا نفاذ تھا جس میں اختیارات کو عوامی سطح پر منتقل کردیا گیا تھا اور قومی و صوبائی اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کو بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیا گیا تھا ، جس کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح بڑے بڑے نام رکھنے والے سیاستدانوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہوکر سٹی اور علاقائی ناظم کے انتخابات میں حصہ لیا جبکہ کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں کی شکلیں بھی مشرف دور کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام کے نتیجے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بعد ہی تبدیل ہوئی تھیں لیکن پھر اس کے بعد ہمارے ملک میں جمہوریت نافذ ہوئی اور جمہوریت کے ثمرات سے نہ صرف پاکستان میں رہنے والے پاکستانی مستفید ہوئے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی جمہوریت کے ثمرات سے پوری طرح نوازا گیا، ان ثمرات میں سب سے اہم ملک سے فوری طور پر بلدیاتی نظام کا خاتمہ کردیا گیا تاکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبرا ن کو پھر سے کروڑوں روپے سالانہ کے ترقیاتی فنڈز ملنا شروع ہوجائیں ، دوسرا اہم اقدام روپے کی قدر میں بے تحاشہ گراوٹ شروع کردی گئی جس سے مشرف دور میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان روانہ کی جانے والی ترسیلات کی وقعت نصف سے بھی کم رہ گئی، مشرف دور میں فی ڈالر ستّر روپے کی قدر گر کر فی ڈالر سو روپے تک پہنچ گئی، جس سے نہ صرف پاکستان کے اوپر پہلے سے موجود غیر ملکی قرضوں کا حجم حد سے زیاد ہ تجاوز کرگیا بلکہ روپے کی قدر کم ہونے کے باعث مشرف دور پر ساٹھ روپے لیٹر ملنے والا پیٹرول سو روپے فی لیٹر سے تجاوزکرگیا جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ،جس کے باعث گزشتہ پانچ سال پاکستان نے انتہائی معاشی مشکلات میں گزارے تاہم بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے کے مصداق پاکستان میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کر لئے ہیں اور اس وقت پاکستانی عوام کے پاس ایک اور موقع ہے کہ سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور کا جائزہ لے سکیں، سابقہ دورمیں حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اچھے اور برے اقدامات کو پرکھ سکیں اور اگلے پانچ سال کے لئے سابقہ حکومت کو ہی یا نئے لوگوں کو منتخب کرسکیں تاکہ ملک کے حالات اگلے پانچ سالوں میں کچھ بہتر ہو سکیں تاہم اس وقت یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کون سی سیاسی جماعت ملک اور قوم سے مخلص ہے جو پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بناسکتی ہے، کون سی سیاسی جماعت کے پاس ایسا معاشی ایجنڈا ہے جو پاکستان کی گرتی ہوئی کرنسی کی قدر کو بہتر کرسکتا ہے، پاکستان میں تعلیم کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کرسکتا ہے ، پاکستان کے اوپر بھاری غیر ملکی قرض کے بوجھ کو کم کرسکتا ہے ،پاکستان کو ڈرون حملوں سے نجات دلاسکتا ہے ، پاکستان کو بجلی کی پیداوار میں خودکفالت دلاسکتا ہے ،پاکستان میں موجود زیر زمین کوئلے ،تیل اور گیس کے خزانے کو پاکستان کے مفاد میں استعمال میں لاسکتاہے ، بلوچستان کے عوام میں موجود احساس محرومی کا خاتمہ کرسکتاہے جبکہ ووٹ دینے سے قبل ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کونسی سیاسی جماعت پاکستان کے سب سے اہم مسئلے یعنی بلدیاتی نظام کو پھر سے شروع کراسکتی ہے، بلاشبہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت اگر پاکستان کے یہ گنتی کے مسائل حل کردے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان ترقی کے ٹریک پر داخل ہوجائے گا۔
دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کا سفر کرنے اور جاپان جیسے دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں ایک دہائی سے زائد کی رہائش کا تجربہ رکھنے کے باعث میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں جن ملکوں نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنے ملک میں ایک ایسا سسٹم نافذ کیا ہے جس میں رہتے ہوئے عام آدمی بھی بآسانی ترقی کرسکتا ہے جبکہ عام آدمی کی ترقی کے سبب ملک بھی ترقی کرتا ہے۔ میں جاپان ،امریکہ ،برطانیہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں مقیم درجنوں پاکستانیوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو پاکستان میں بے روزگاری کے سبب ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور دیار غیر میں آباد ہوئے اور آج ان پاکستانیوں کے پاس سیکڑوں غیر ملکی ملازم کام کررہے ہیں۔ دیار غیر میں رہنے والے ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کاروبار کرنے کے لئے بہترین مواقع موجود ہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں کاروباری شخصیات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور کرپشن نام کو نہیں ہے جس کے باعث ترقی کرنا آسان ہوجاتا ہے جبکہ جاپان میں رہائش پذیر سیکڑوں پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے معاشی مسائل کے سبب پاکستان چھوڑا تھا تاہم یہ پاکستانی اب جاپان میں کروڑ پتی اور ارب پتی بن چکے ہیں۔ جاپان کی ترقی کا راز وہاں کی مقامی حکومتیں،کم شرح سود اور تعلیم کا بہترین تناسب ہے ،جاپان جو رقبے کے حساب سے پاکستان سے چھوٹا ملک ہے تاہم اس کو انتظامی طور پر سینتالیس صوبوں میں تقیسم کیا گیا ہے جہاں مقامی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں کی ترقی کے لئے بہترین اقدامات کر رہی ہیں۔ جاپان کی مرکزی حکومت کے پاس ،خارجہ ،دفاع ، خزانہ اور داخلہ کے محکمے ہیں جبکہ دیگر تمام اختیارات صوبائی حکومتوں کو تقیسم کردیئے گئے ہیں، جس سے صوبوں کو مرکز سے شکایات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہی جاپان کی ترقی کا سبب بھی ہیں۔ دنیا بھر میں ترقی کی وجوہات کو جاننے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جہاں انتخابات اب صرف چند دن کی ہی بات ہیں یہاں کے عوام کے پاس اب فیصلے کی گھڑی آچکی ہے جنہیں اب اپنے آپ ،اپنے شہر ، اپنے صوبے اور اپنے ملک کے لئے ترقی کے راستے کا انتخاب کرنا ہے ، جس کے لئے ان کے پاس کئی آپشن بھی موجود ہیں ، یہ آپشن مختلف سیاسی جماعتوں ، ان کے منشور اور ان کے ماضی کی صورت میں موجود ہیں لہذا اس دفعہ عوام کو ایسی سیاسی جماعت کو ووٹ دینا ہے جو پاکستان کے عوام اور پاکستان کے مستقبل کے لئے بہتر اقدامات کرسکے، پاکستان کو دنیا میں بہتر مقام دلا سکے ، پاکستان میں معیاری اور یکساں تعلیمی نظام رائج کرسکے، پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو بحال کرسکے اور الیکشن مہم کے دوران قوم سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کر سکیں۔ بلاشبہ یہ فیصلے کی گھڑی ہے اور فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔
تازہ ترین