• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راولپنڈی کے ایک گمنام شاعر آغا حسن ضیاء نے برسوں پہلے کہا تھا کہ
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہٴ سیاہ میں تھی
واقعی بعض چیزیں علاقائی تبدیلی سے معانی و مفہوم بدل دیتی ہیں، جیسے کترینہ امریکہ میں طوفان کے نام سے پہچانی گئی لیکن بھارت کی فلم انڈسٹری میں پہنچی تو باربی ڈول کہلائی، اسی طرح سونامی انڈونیشیا میں تباہی و بربادی کی علامت تھی مگر عمران خان کے پاس آکر جمہوری یلغار بن گئی ہے، شیر ہی کو دیکھ لیں جنگل میں اسے کوئی منہ نہیں لگاتا، مگر مسلم لیگ ”ن“ والوں نے اسے اپنا مستقبل بنالیا ہے۔ علم و نور کا زمانہ ہے، مقابلے کی دوڑ لگی ہوئی ہے وکٹری اسٹینڈ تک پہنچنے کے لئے لوگ دو نمبری تک کررہے ہیں، جعلی ڈگریاں رواج پارہی ہیں مگر پیپلزپارٹی آج بھی پتھر کے زمانے کی علامت ”تیر“ اٹھائے پھرتی ہے۔ اس نے تلوار سے تیر تک کے سفر میں بہت سارے جانثاروں کی قربانیاں دی ہیں، کتنے ہی گمنام مجاہدین کو راستے میں ہی چھوڑ دیا ہے، جبھی تو آج وہ خود تنہا ہوگئی ہے، اس کے پاس قیادت کا فقدان ہے۔ جیالوں کا خیال تھا اس آڑے وقت میں عالی مرتبت آصف علی زرداری استثنیٰ کی سہولت کو بالائے طاق رکھ کر ایوان صدر کے مورچے سے نکلیں گے، انتخابی مہم کا حصہ بنیں گے، ساتھیوں کو ہلاشیری دیں گے مگر ایسا نہ کیا جا سکا تیسری دنیا کا خواب دیکھنے والی پیپلزپارٹی سمٹ کر آج اخبارات کے لوئر ہاف کیلئے اشتہاری مہم تک محدود ہوگئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے مگر عالی مرتبت صدارت کو تحفظ کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیالے گلی گلی پکارتے پھرتے ہیں کہ ”کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے“ بھٹوآج زندہ نہیں ہے ان کی محبت زندہ ہے جو وہ عام آدمی سے کرتے تھے، علی ظہیر منہاس نے کہا تھا کہ
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
پاکستان کے موجودہ انتخابات 2013ء اس کی بقا کی نوید ہیں، روشن مستقبل کی ضمانت ہیں، ہر چند کہ ان انتخابات کے التوا کی بے تحاشا کوششیں ہوئیں، کئی جتن کئے گئے بعضوں نے منتیں مانیں، کچھ کو عینکیں لگاکر بھی انتخابات دکھائی نہ دیئے مگر اللہ کے فضل و کرم سے فی الحال وہ ساری سازشیں ایک ایک کرکے دم توڑ گئی ہیں۔ انتخاب کے التواکا سب سے پہلا حملہ 23دسمبر 2012ء کو لاہور میں ہوا تھا، مینار پاکستان کے سائے تلے جہاں 23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی ٹھیک پونے تہتر سال بعد اسی جگہ مولانا طاہر القادری نے پاکستان میں جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں شروع کیں، دوبارہ 14جنوری 2013ء کو جمہوریت پر شب خون مارنے کے لئے لانگ مارچ کا ڈرامہ رچایا، آخری حربے کے طور پر سپریم کورٹ جا پہنچے الیکشن کمیشن کو متنازع بنانا چاہا کچھ نہ بن سکا تو کھسیانگی کے انداز میں الیکشن والے دن دھرنوں کا اعلان کردیا۔ فی الوقت ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو پاکستان میں جمہوری عمل دیکھنا چاہتی ہیں اور عوام کا اقتدار عوام کے نمائندوں کو دلانے کیلئے کوشاں ہیں دوسری طرف وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو خود کھیلتے ہیں نہ کسی دوسرے کوکھیلتا دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔پاکستان کے ستّر ہزار فوجی جوان انتخابات کے موقع پر امن و امان اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے دیگر انتظامی اداروں کی مدد کیلئے میدان میں اتر چکے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا وہ جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ ”دنیا اِدھرسے اُدھر ہوجائے انتخابات پھر بھی ہوں گے“ ارادے کی یہ پختگی ایمان کامل کی علامت ہے۔ الیکشن کمیشن بھی پوری دیانت سے انتخابات کیلئے کوشاں ہے، میڈیا بھی انتظامیہ کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے، نگران بھی تمام تر مشکلات کے باوجود پورے قد سے کھڑے ہیں! دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اخبار نویسوں اور انتخابی امیدواروں کے جانوں کا ضیاع، احتجاج ہڑتال، بائیکاٹ کی دھمکیاں، بم دھماکے، سیاسی جماعتوں کے دفاتر کی بندش اور اس قسم کے دیگرحربے، وہ سارے کے سارے انتخابات کے التوا کی کوششیں اور نگران حکومت پر دباؤبڑھانے کے حربے تھے، جوکامیاب نہ ہوئے۔
سابقہ عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف کا ایسے موقع پر پاکستان آنا بھی نگرانوں پر دباؤ بڑھانا مقصود تھا مگر
خود آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
جنرل پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے، وہ گیارہ مئی کو الیکشن والے دن سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دیں گے۔ مولانا طاہر القادری کی غیررجسٹرڈ ”عوامی تحریک“ نے 300 اینٹی الیکشن دھرنوں کا اعلان کیا ہے، سیکورٹی خدشات کی وجہ سے طاہر القادری خود دھرنے میں شریک نہیں ہوں گے، دھرنا کیمپوں میں گانوں اور نغموں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین اور اس وقت کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم نے اپنی وفات سے چند دن پہلے کہا تھا کہ غیرقانونی اسلحے کو نہ روکا گیا توآئندہ الیکشن وہی جیتے گا جس کے پاس زیادہ اسلحہ ہوگا۔ حکومت نے اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگاکر صاحبزادہ فضل کریم کے خدشے کا تدارک کردیا ہے۔ دنیا کے 169جمہوری ممالک میں پاکستان کا شمار ووٹر کے ٹرن آؤٹ کے حوالے سے 164ویں نمبر پرہے۔ بھارت 59.42 فیصد، بنگلہ دیش 58.2فیصد اور پاکستان 45.3 فیصد ہے، سب سے کم شرح ایوری کوسٹ کی ہے جہاں کا ٹرن آؤٹ 37فیصد ہے۔ آسٹریلیا میں ووٹ ڈالنا لازمی قراردیا گیا ہے، وہاں کا ٹرن آؤٹ 94.05فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ہمارے ہاں ووٹ ڈالنا کبھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اسلام آباد کے NA48 اسلام آبادI سے مولانا شاہ احمد نورانی کے عقیدت مند اور آزاد امیدوار علامہ ظہیر عباس قادری مجھ سے ملنے آئے تو اپنی دینی، ملّی اور بطور استاد خدمات کے علاوہ ایک فتویٰ بھی دیا جو چیئرمین اسلام آباد علماء کونسل اور سربراہ شرعی بورڈ آف پاکستان، پروفیسر ڈاکٹر مفتی محمد ظفر اقبال جلالی نے جاری کیا تھا کہ ”ووٹ ایک مقدس امانت ہے، شرعی اور قومی فریضہ ہے، ووٹ نہ دینا یا نااہل کو دینا قومی جرم ہے“۔
تازہ ترین