• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خشک شام، سردر ات میں ڈھل رہی تھی۔ اسلام آباد کی کافی شاپ میں حامد میر اور میں بیٹھے ارشد وحید چوہدری کی باتیں کر رہے تھے، ماحول آہستہ آہستہ سوگوار ہورہا تھا، حامد میر کہہ رہے تھے ’’دو دن پہلے میں یہ سوچ کر رو پڑا کہ ارشد وحید کو جب وینٹی لیٹر لگ رہا ہوگا، وہ کتنا بےبس ہوگا۔

اُسے معلوم ہو گیا ہوگا کہ اب بچنا مشکل، گو کہ اُسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی، اُس کا آکسیجن لیول کم سے کم ہورہا تھا مگر وہ وینٹی لیٹر نہیں لگوانا چاہتا تھا، شاید اُس کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ اگر وینٹی لیٹر لگ گیا تو بچ نہیں پائے گا‘‘۔

حامد میر بتا رہے تھے ’’ارشد وحید کو کورونا اُس کے والد سے ہوا جو اُس سے ملنے ساہیوال سے اسلام آباد آئے تھے، وہ استھما کا مریض تھا، کورونا ہوا، سانس لینے میں پرابلم ہوئی، اسپتال گیا اور پھر وہیں سے اگلے جہان نکل گیا۔

ہم جنگ، جیو گروپ میں سالہا سال سے کولیگ تھے، وہ اچھا رپورٹر، اچھا کولیگ، کمال کا انسان تھا۔ ہمیشہ محبت، خلوص، انکساری سے ملتا‘‘۔

حامد میر بات کرتے کرتے رُکے، لمحہ بھر کیلئے چپ رہ کر دوبارہ بولے ’’سوچ رہا ہوں اُس کے بچوں کیلئے کتنا مشکل وقت ہوگا، اُس کے والدین، بہن بھائی کتنی تکلیف میں ہوں گے‘‘، یہ کہہ کر میر صاحب خاموش ہوگئے، میری نظر اُن کے چہرے پر پڑی، آنکھیں بھیگی ہوئیں، چہرے پر دکھ ہی دکھ، مجھ میں کچھ کہنے کی ہمت نہ رہی۔

میں کافی شاپ کی کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگا، جب خاموشی طویل ہونے لگی، میں نے کہا ’’میر صاحب آئیے، ارشد وحید کیلئے دعا کرتے ہیں‘‘، ہم دونوں نے ہاتھ اُٹھائے اور وقت سے پہلے چلے گئے دوست کی مغفرت و بخشش کیلئے دعا کرنے لگ گئے۔

جیو ٹی وی کے پروگرام ’جیو پارلیمنٹ‘ کے میزبان ارشد وحید سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ تو یاد نہیں مگر یہ یاد جب بھی ملا ایسے خلوص بھری عاجزی سے ملا کہ ایک دن مجھے یہ کہنا پڑا کہ ’’بھائی جان تمہاری عاجزی پر مجھے رشک آئے، تمہیں ملتے ہوئے حضورؐ کی وہ حدیث یاد آجائے جس کا مفہوم ہے کہ ’’اگر عاجزی اختیار کرنے سے تمہاری عزت کم ہوئی تو قیامت والے دن مجھ سے لے لینا‘‘۔ 

وہ ہنس کر بولا ’’ایک آپ مجھ سے عمر میں بڑے، دوسرا میرا یہ ماننا کہ جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں‘‘ ۔

ارشد وحید چوہدری سے دفتر آتے جاتے، پارکنگ میں، لفٹ کے سامنے، دفتر کی راہداریوں میں ہر دوسرے دن ملاقات ہو جاتی، چونکہ اُسے یقین تھا کہ نواز شریف انقلاب لانے والے، سویلین بالادستی قائم کرنے والے، لہٰذا میں اُسے اکثر چھیڑتا، بھائی جی جب آپ کا انقلابِ فرانس آجائے تو ہمارا خیال رکھنا۔

وہ ہمیشہ ہنس کر کہتا ’’بھائی کا خاص خیال رکھا جائے گا‘‘، میں اُس سے اکثر پوچھتا ’’آپ کے قائدِ انقلاب لندن سے کیوں واپس نہیں آرہے؟‘‘، اُس کا جواب ہوتا ’’قائدِ انقلاب جلد پاکستان ہوں گے‘‘، مجھے یاد، میں نے کے الیکٹرک پر کالم لکھنا تھا، وہ مجھے دفتر کی پارکنگ میں مل گیا، میں نے پوچھا ’’کے الیکٹرک کے حوالے سے کچھ اتا پتا ہے؟‘‘ اُس نے وہیں کھڑے کھڑے اگلے آدھے گھنٹے میں کےالیکٹرک کی ایسی کہانی سنا دی کہ مجھے ازبر ہو گئی۔

مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد، ایک دفعہ زندگی اور موت پر بات ہوئی، وہ بولا، رات کو سوتے وقت اکثر خیال آئے کہ اگر صبح اٹھنے کا موقع نہ ملا، اگر یہ رات آخری ہوئی تو کیا اتنی نیکیاں ہیں کہ آگے جا کر بچت ہو جائے؟ جس دن وہ مجھ سے یہ باتیں کر رہا تھا، اُس دن اُسے کیا معلوم تھا کہ جس آخری رات، آخری صبح کی وہ بات کر رہا وہ رات، وہ صبح صرف چار ساڑھے چار مہینوں کی دوری پر ہے۔

وہ جلدی چلا گیا، یقین نہیں آرہا کہ وہ چلا گیا، اب بھی یوں لگے دفتر آتے جاتے کہیں نہ کہیں اُس سے ملاقات ہو جائے گی، جہاں تک جلدی جانے اور وقت سے پہلے جانے کا دکھ، یہ مجھ سے بہتر کون جانے، میری ماں 32سال کی تھیں کہ چلی گئیں، 35سال ہونے کو آئے۔

کوئی دن، کوئی رات ایسی نہیں جب ماں بھولی ہو، کوئی خوشی، کوئی غم ایسا نہیں جس میں ماں یاد نہ آئی ہو، کب سے یہ روٹین جب بھی دل اداس ہو، مایوسی زیادہ ہونے لگے، ماں کی قبر پر پہنچ جاؤں، سب کچھ ماں کو سناؤں، سب کچھ ماں کو بتاؤں، پھر سے تازہ دم ہو جاؤں، یقین جانئے ماں کی قبر پر بیٹھے سب کچھ سناتے ایسا محسوس ہو جیسے ماں سب کچھ سن رہی، بالکل ویسے جیسے بچپن میں سب کام چھوڑ چھاڑ کر بڑے دھیان سے میری باتیں سنا کرتی۔

میں بول رہا ہوتا، ماں سن رہی ہوتی، کوئی درمیان میں بولتا، ماں اُسے روک کر کہتی پہلے مجھے اپنے بیٹے کی بات سن لینے دو، مجھے کوئی ایسا دن یاد نہیں جب ماں نے میرے بغیر کچھ کھایا ہو، شاید اُنہیں پتا تھا کہ اُنہوں نے جلدی چلے جانا، بیٹے نے عمر بھر میرے بنا رہنا، اِس لئے توجہ، محبت کچھ زیادہ ہی تھی، کیا بتاؤں؟ کیا سناؤں؟ میرے پاس ماں کی تصویر نہ کوئی نشانی، مجھے ماں کا بس چہرہ یاد، باتیں، یادیں ہی رہ گئیں۔

اب ماں کی قبر اور میں، جن کی مائیں زندہ، اُن خوش نصیبوں سے کہنا، ماں جیسی کوئی نعمت نہیں، ماں کی قدر کرو، ماں سے پیار کرو، اِس سے پہلے کہ مجھ جیسا حال ہو جائے، لہٰذا جلدی چھوڑ جانے کا دکھ مجھ سے بہتر کون جانے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا دوست ارشد وحید چوہدری کا، حامد میر اور میں نے بخشش کی دعا کی، ہم اُٹھے، ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ 

گھر واپس جاتے ہوئے ماں یاد آئی اور شدت سے یاد آئی، گھر پہنچ کر میں نے موبائل دیکھا، حامد میر کا میسج تھا ’’بھائی جان آپ نے میرے ساتھ بیٹھ کر ارشد کو یاد کیا، فاتحہ کی، میرا دل ہلکا ہو گیا، آپ کا شکریہ‘‘۔ 

میسج پڑھ کر میں نے دل ہی دل میں میر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ اُن سے ارشد وحید کی باتیں ہوئیں، ماں یاد آئی، ایسی یاد آئی کہ فیصلہ کر لیا، صبح ماں کی قبر پر جانا مطلب ماں سے ملنے جانا۔

تازہ ترین