• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کی ریڈ میٹرو، لاہور کی اورنج ٹرین، پشاور کی گرین بی آر ٹیسسٹم اور بلیو اکانومی کے بعد اب گرین انڈسٹریز اور گرین فنانسنگ کی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں جن کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے مقامی ہوٹل میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر فیوچر فورم نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا عنوان ’’گرین فنانسنگ 2020‘‘ تھا۔ اس کانفرنس میں مجھے خصوصی اسپیکر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ۔ کانفرنس میں پی ٹی آئی کی ممبر قومی اسمبلی نصرت واحد، ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے سیکرٹری اسلم غوری، اوشنوگرافی کی سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نزہت خان، انٹیلیکچوئل فورم کے میاں زاہد حسین، جے ایس بینک کی ندا حمید، اسپانسر بینک الحبیب اور فیوچر فورم کے صمد حسین نے گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور پاکستان میں ماحولیات کو درپیش چیلنجز پر مقالے پیش کئے۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ دنیا میں پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی سے قدرتی وسائل میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ گزشتہ سال پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں اِس بات پر اتفاق کیا گیا کہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث برفانی تودے اور گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جبکہ ہیٹ اسٹروک، گرمی میں اضافہ اور کراچی کی شدید بارشیں بھی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان اوزون کی حفاظتی تہہ جو زمین کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے، کو صنعتی کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس تہہ میں شگاف ہوجانے کی وجہ سے یہ حفاظتی تہہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو مکمل طور پر روکنے سے قاصر ہے جس کے باعث سورج کی حدت براہ راست زمین کو متاثر کررہی ہے اور یوں زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا ایک چوتھائی رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا ضروری ہے جبکہ پاکستان کا صرف 4فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے جسے بھی کاٹا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کا دھواں ماحول میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر اور نائٹروجن جیسی زہریلی گیسوں کو جنم دے رہا ہے جس کے نتیجے میں سانس، ناک، حلق اور جلدی امراض میں ہر سال اوسطاً 8 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ روزانہ لاکھوں ٹن کچرا جلاکر اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کی جارہی ہے اور اِن زہریلی گیسوں کے اخراج سے نمٹنے کیلئے پاکستان میں کوئی موثر نظام نہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے سے کراچی کی سمندری سطح میں 10سینٹی میٹر اضافہ ہوا ہے ، ماہرین کی رائے ہے کہ موجودہ صدی کے آخر تک پاکستان کے درجہ حرارت میں 3سے 5 فیصد اور سمندری سطح میں 60سینٹی میٹر اضافہ ہوسکتا ہے۔

گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے، دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ 10 ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا ہے جن میں امریکہ سرفہرست ہے جس کے بعد چین، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔ امریکہ کا دنیا کی مجموعی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 24فیصد، یورپی ممالک کا 14فیصد جبکہ چین کا حصہ 13فیصد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا فی کس اخراج اوسطاً 10میٹرک ٹن سالانہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کا سالانہ اخراج 20میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے 1997میں جاپان میں 160سے زائد ممالک نے کیوٹو پروٹوکول پر دستخط کئے لیکن فروری 2005میں معاہدے کو عملی شکل دیتے وقت امریکہ نے معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا کیونکہ معاہدے کے تحت مقررہ حد سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلانے والے ممالک پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جبکہ ایسے صنعتی ادارے جو فضائی آلودگی کا مقررہ حد سے کم اخراج کرتے ہیں، اُنہیں کاربن کریڈٹ دیئے جاتے ہیں جس کی مالیت اربوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بڑے امریکی اور یورپی خریدار ماحول دوست صنعتوں سے اشیاء خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈینم سیکٹر میں ’’گرین فیلڈ انڈسٹریز‘‘ متعارف کرائی جارہی ہیں۔ پاکستان میں ایسی صنعتیں جو تھرمل اور ڈیزل کے بجائے قدرتی گیس، ہائیڈرو، ونڈ اور سولر کے ذریعے بجلی حاصل کررہی ہیں، اُن کا کاربن اخراج مقررہ حد سے کم ہے جس کی بناء پر وہ کاربن کریڈیٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ حال ہی میں کچھ پاکستانی کمپنیوں نے کاربن کریڈٹ کیلئے کلیم دائر کئے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی، زہریلی گیسوں کا اخراج اور زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہماری فصلوں کی پیداوار کو بھی متاثر کررہا ہے کیونکہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے سے پانی بھانپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ اِن چیلنجز کے پیش نظر برطانیہ نے ’’گرین فنانس‘‘ متعارف کرایا ہے۔ پاکستان میں بھی اسٹیٹ بینک نے ’’گرین فنانس‘‘ کے نام سے نجی بینکوں کو 6 فیصد رعایتی شرح سود پر ٹیوب ویل اور مکانات کیلئے سولر پینل لگانے کیلئے 3 سے 5 سال تک کے قرضوں کیلئے فنڈز فراہم کئے ہیں۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم، دریائے راوی شہری ڈویلپمنٹ پروجیکٹ (RRUDP)، سی پیک اور گوادر سٹی جیسے نئے پروجیکٹس میں گرین کنسٹرکشن کمپنیوں، گرین سیمنٹ اور اسٹیل مینوفیکچررز، ہائیڈرو، ونڈ اور سولر توانائی سے حاصل کی گئی بجلی اور گرین فنانسنگ کو ترجیح دی جائے۔اِس کے علاوہ بینکوں کو ماحول دوست گرین انڈسٹریز، گرین ٹرانسپورٹ، گرین کنسٹرکشن کیلئے گرین فنانسنگ اسکیم کے تحت فنڈز مختص کئے جائیں تاکہ ’’کلین اور گرین پاکستان‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

تازہ ترین