• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد ہمیشہ کی طرح پوری دنیا میں امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں بے شمار تجزیے کئے جا چکے ہیں۔ کچھ تجزیے امریکہ کے اندر بیٹھ کر بہت گہرائی کے ساتھ جبکہ کچھ امریکہ سے باہر بیٹھ کر وسیع تر تناظر میں کئےگئے ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کی داخلی پالیسیوں میں سے امیگریشن اور صحت سے متعلق کچھ پالیسیوں میں تبدیلی ہو سکتی ہے جبکہ خارجہ پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔مشرق وسطی اور ایران کے معاملات پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ پہلے سے طے شدہ اسکیم کے تحت یکسر نہیں، قدرے مختلف ہو گا اور بس، اس میں جو بائیڈن انتظامیہ کے کردار کا تعین بھی ضرورت کے مطابق ہو گا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ’’ ففتھ اسٹیٹ میڈیا ‘‘ پر بھی اتنا ہی کنٹرول ہے، جس قدر فورتھ اسٹیٹ میڈیا ( الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ) پر تھا۔ امریکہ نے اپنی نئی ’’ پروڈکٹ ‘‘ کو بہت بہتر انداز میں فروخت کیا ہے۔ یہ تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ ٹرمپ کی ’’ سب سے پہلے امریکہ ‘‘ والی یکطرفہ پالیسی نہیں رہے گی۔ جوبائیڈن کی ابکثیر الطرفہ پالیسی ہو گی اور امریکہ کی دنیا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ٹرمپ انتظامیہ سے مختلف ہو گی۔ کس طرح مختلف ہو گی؟ اس کی تجزیہ کار ابھی تک نہ صرف وضاحت نہیں کرسکے بلکہ سابقہ امریکی پالیسیوں کے تسلسل کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود نئی پروڈکٹ کی بہت زیادہ مشہوری کی جا رہی ہے۔ میڈیا پر دائیں بازو کے دانشوروں کے تجزیوں کی یلغار میں حقیقی سائنسی اور جدلیاتی تجزیوں تک پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

دنیا کو اس حقیقت سے آگاہی ہونی چاہئے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی معیشتیں سخت بحران کا شکا رہیں، جس کی وجہ سے اس سامراجی نظام کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، جو کورونا سے پہلے دنیا میں اپنی من مانی کر رہا تھا۔ اگرچہ کورونا سے پہلے ہی چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کی وجہ سے دنیا میں نئی صف بندیاں شروع ہو چکی تھیں اور دنیا ’’ یونی پولر ‘‘ نہیں رہی تھی لیکن اب یہ صف بندیاں زیادہ تیزی سے ہونے لگی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو چیلنج کرنے والی نئی طاقتیں اور ابھرتے ہوئے بلاکس کی اپنی معیشت بھی کورونا کے باعث بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مگر ان طاقتوں اور نئے ممکنہ بلاکس کے ممالک کی معیشت کا انحصار اس سامراجی استحصال پر نہیں ہے، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جنگ و جدل کے ذریعے دنیا کی معیشتوں اور سیاست پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ امریکہ کے لئے چیلنج بننے والے ممالک اپنی معیشت کی بحالی اور اپنی بقاء کے لئے معاشی منصوبہ بندی پر انحصار کریں گے جبکہ امریکہ اور اس کے روایتی اتحادی مزید فوجی مہم جوئی کا سہارالیں گے۔ بظاہر نرم گفتار اور دنیا کے ساتھ کثیر الطرفہ تعلقات قائم کرنے کے داعی جوبائیڈن پر فوجی مہم جوئی کے لئے زیادہ دباؤ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ جس طرح کی فوجی مہم جوئی کی حکمت عملی تیار کر رہی ہے، اس کے اتحادی خصوصا نیٹو ( NATO ) میں شامل اتحادی اس کا ساتھ نہ دے سکیں۔ اس لئے امریکہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ نیٹو کے اتحادی مجبورا ًامریکہ کا ساتھ دیں۔ امریکہ نیٹو کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کےلئے زیادہ بجٹ مختص کرے گا۔ اس سے امریکی معیشت پر مزید دباؤ بڑھے گا اور امریکہ مزید جنگجوئی والی پالیسی کی طرف جائے گا۔

یہ تو ہے عمومی صورت حال۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ میں کسی بھی ڈیمو کریٹک صدر کے دور میں وہ توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں، جو پاکستان کی جمہوری قوتیں ان سے وابستہ کرتی ہیں۔ 1979ءمیں ڈیمو کریٹک صدر جمی کارٹر کے دور میں پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہوا اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ اس کے بعد پاکستان کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب امریکہ نے دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کےلئے فوجی مہم جوئی کی۔ ایک اور ڈیمو کریٹک صدر بل کلنٹن کے دور میں پاکستان میں تین مرتبہ جمہوری حکومتیں ختم کی گئیں اور 1999 میں پاکستان میں غیر منتخب حکومت قائم کرکے پاکستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک اور جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اس کے بعد 2001 میں نائن الیون رونما ہوا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ایندھن بن گیا۔ اس تباہی سے ہم نہیں نکل سکے ۔ اب ایک اور ڈیمو کریٹک صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ کے پاس دنیا میں بڑے پیمانے پر فوجی مہم جوئی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا۔ 1979 ءاور 2001ءسے زیادہ حالات خراب ہیں، جو امریکہ کو اس راستے پر ڈال چکے ہیں۔ اب امریکہ نئی مہم جوئی میں بھارت اور خطے کے دیگر ممالک پر انحصار کرے گا اور یہ نئی مہم جوئی بہت پیچیدہ اور مختلف ہو گی۔ کورونا کی وجہ سے ہماری معیشت بھی تباہ حالی سے دوچار ہے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن کو روکنا بہت ضروری ہے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے۔

تازہ ترین