فیڈرل پبلک سروس کمیشن ملک کے معتبر ترین قومی اداروں میں سے ایک ہے اور سول بیورو کریسی کی میرٹ پر بھرتی کی شہرت رکھتا ہے۔ برٹش انڈیا میں سرکاری اہلکاروں کی بھرتی کیلئے پبلک سروس کمیشن کا قیام اول اول 1926ء میں عمل میں آیا تھا۔ پاکستان بنا تو اس مقصد کے لئے قائم کئے جانے والے ادارے کو سینٹرل پبلک سروس کمیشن کا نام دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد جس کا نام بدل کر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کر دیا گیا جو آئین کے آرٹیکل242 کے تحت کام کر رہا ہے اور انتظامی اور مالی معاملات میں بڑی حد تک خود مختار ہے تاکہ کسی قسم کے خارجی دباؤ کے بغیر اور مکمل غیر جانبداری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا سکے۔ کمیشن کے چیئرمین کا تقرر صدر پاکستان اپنی صوابدید پر کرتا ہے جبکہ ممبران کی تقرری بھی صدر ہی کرتا ہے مگر وزیراعظم کی سفارش پر۔ چیئرمین اور ممبران کو کم و بیش عدالت عظمیٰ کے ججوں کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ ان کے عہدوں کی مدت آئینی طور متعین ہے جس سے انہیں سپریم جوڈیشیل کونسل آف پاکستان کی سفارش کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ سارا اہتمام اس لئے کیا گیا ہے کہ وفاقی محکموں کے افسران کا تقرر کسی قسم کی دھونس، دھاندلی، سفارش اور مداخلت کے بغیر خالصتاً میرٹ پر کیا جا سکے کیونکہ بیورو کریسی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور بیورو کریسی ایک مستقل ادارے کی حیثیت سے حکومتوں کو چلانے اور مشکلات ومسائل سے نکالنے کیلئے پیشہ ورانہ کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ جس کسی پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی مہر لگ جاتی ہے اس کی اہلیت کی تصدیق کی مزید ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور آنکھیں بند کر کے اسے حکومت میں بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ ایف پی ایس سی گو گریڈ 16/اور اسے سے نیچے کی بعض اسامیوں کیلئے انتخاب بھی کرتا ہے مگر اس کی بڑی ذمہ داری گریڈ17 تا 22 تک کی اسامیوں پر موزوں امیدواروں کا تقرر ہے اور اس کا اہم ترین فریضہ سی ایس ایس کے سالانہ مقابلے کے امتحان کا انعقاد اور اس کے ذریعے بارہ پیشہ ورانہ سروس گروپس کیلئے گریڈ سترہ کے افسروں کا انتخاب ہے۔ جو 1200 نمبروں کے تحریری اور 300 نمبروں کے نفسیاتی اور زبانی امتحانات پر مشتمل ہے۔ تحریری امتحان کیلئے ملک بھر میں درجنوں مراکز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اعتماد اور اعتبار بہت بڑی چیز ہے۔ انسانوں پر یا اداروں پر اور اگر ایک بار اٹھ جائے تو نقصان کی تلافی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ انسانوں کے معاملے میں تو شاید پھر بھی رعایت کی جا سکتی ہے مگر اداروں میں جھول آجائے تو زلزلہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور شکوک و شبہات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اگر یہ ریاست کا آئینی ادارہ ہو تو واردات کی گمبھیرتا میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن ریاست پاکستان کا ایک باوقار آئینی ادارہ ہے جس کی بے لاگ کارکردگی کی مثال دی جاتی ہے اور اس کی امانت و دیانت کی لوگ قسم کھایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے راقم کا ذاتی تجربہ بھی ہے متعدد بار اس ادارے کے انٹرویو بورڈ میں محکمانہ نمائندہ کے طور پر شرکت کا موقع ملا اور طریق کار کو انتہائی شفاف پایا۔ جس میں کسی قسم کے جھول اور رو رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مگر بدقسمتی سے2013ء کے سی ایس ایس کے مقابلے کے تحریری امتحان کے دوران یہ بھرم ٹوٹ گیا۔ فیصل آباد سینٹر سے امتحان میں بیٹھنے والے چند امیدواروں نے محکمہ ڈاک کے مقامی اہلکاروں سے مل کر حل شدہ پرچوں کے بنڈلوں کی سیل توڑی، پرچے نئے سرے سے حل کر کے سیل پھر سے اپنی جگہ پر جمادی اور بنڈل ڈاک خانہ کے حوالے کر دیئے۔ مگر نالائقی یہ کی کہ اس کارروائی میں ضرورت سے زیادہ وقت لگا دیا۔ دو چار گھنٹوں کی بات ہوتی تو معاملہ شاید دب جاتا اور ایف پی ایس سی سمیت کسی کے نوٹس میں نہ آتا کیونکہ شواہد بتاتے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں دھڑا دھڑ موصول ہونے والے بنڈلوں کی سیلوں پر دیدہ ریزی کرنے کا ان کے ہاں کوئی رواج نہیں۔ اگر واقعی صورت احوال یہ ہے تو یار لوگوں کا یہ خدشہ کہ چوری، فراڈ اور بددیانتی کا یہ گھناؤنا کھیل نہ جانے کب سے کھیلا جا رہا ہے، پُر مغز ہے اور ان کا یہ کہنا کہ سول سروس کے بڑے بڑے معتبر ناموں میں سے نہ جانے کس کس کی انٹری اس چینل سے ہوئی ہے، بھی اپنے اندر دینائے معانی لئے ہوئے ہے۔ اب شک پڑ گیا ہے تو بات دور تک جائے گی فیصل آباد سینٹر سے تقریباً تین سو امیدوار امتحان میں بیٹھے تھے اور اس اسکینڈل نے سب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انکوائری شروع ہو چکی ان سب کے پرچے ایف آئی اے کے پاس ہیں جو ہنوز محکمہ ڈاک کے اہلکاروں کو گرفتار کر سکی ہے اور نہ ہی اس بات کا تعین کہ بہتی گنگا میں کس نے کہاں تک ہاتھ دھوئے ہیں؟ اور پرچوں میں کس نے کس حد تک ردوبدل کیا؟ ٹائٹ شیڈول کی وجہ سے ایف پی ایس سی زیادہ دیر تک انتظار بھی نہیں کر سکتا۔ 2013ء کے سی ایس ایس کے تحریری امتحان کے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے لہٰذا فیصل آباد والوں کی تقدیر کا فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا ان کا دوبارہ امتحان لیا جائے؟ کسی ایک مضمون یا سبھی کا؟ معاملہ چونکہ مشکوک ہو چکا اور کمیشن کی کریڈیبلٹی کا سوال ہے لہٰذا مناسب ہوگا کہ فیصل آباد سینٹر کے سبھی امیدواروں کو 2014ء کے مقابلے کے امتحان میں اکاموڈیٹ کیا جائے، اس ٹوہ میں گئے بغیر کہ کون کس حد تک گیا ہے، معاملہ مشکوک ہو چکا ۔ دودھ بھرے حوض میں غلاظت کے چھینٹے گر چکے۔ سو بلا حیل و حجت اسے ضائع کردینا ہی مناسب ہوگا اور مستقبل کیلئے ایف پی ایس سی کو کچھ ایسے فول پروف اقدامات کرنا ہوں گے کہ اس قسم کی کوتاہیوں اور وارداتوں کی راہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا اس کا ازالہ ممکن نہیں ۔ ادارے کی 65 برس کی کمائی ضائع ہو چکی اوراب اسے اپنی ساکھ نئے سرے سے بنانا ہوگی۔ فیصل آباد نونہالوں کی لگائی ہوئی نقب کے اثرات مندمل ہونے میں وقت لگے گا۔ پہلے یہ شہر بلہڑ یونیورسٹی کے حوالے سے مشہور تھا جس کی بنائی جعلی ڈگریاں اصل کو بھی مات کردیتی تھیں۔ اب اس کی کلغی میں ایک اور پر کا اضافہ ہو چکا۔ جعلی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ دو نمبر افسروں کی مینوفیکچرنگ کا کاروبار بھی ہونے لگا۔ اس سانحہ نے بیورو کریسی کے حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم بھی دیا ہے کہ اس کی صفوں میں موجود بعض انتہائی ماٹھے اور ازکار رفتہ قسم کے اہلکار کہیں اس قسم کے بنڈل اسکینڈل کی پیداوار تو نہیں؟