• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیّد اقبال حیدر۔فرینکفرٹ
​ جرمنی میں ابھی برف باری اور سخت سردی شروع نہیں ہوئی مگر پھر بھی ’’کورونا وبا‘‘ ایک بار پھر اپنے خطرناک اثرات کی دوسری لہر کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل نظر آ رہی ہے،فرینکفرٹ میں جواں سال پاکستانی وقار حسین بھی کورونا کا شکار ہوگئے اور پردیس میں اپنی بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ گئے، جرمنی میں حکومت کی ابتدائی غفلت سے کورونا وبا کے متاثرین کا اضافہ ہوا،کورونا کی پہلی لہر کے دوران جن دنوں اٹلی،فرانس،اسپین میں جب کورونا نے تباہ کاریاں جاری تھیں جرمنی میں فضائی اور زمینی راستوں سے ملک میں آنے والوں کا کوئی چیک اَپ نہیں تھا، جرمنی میں سلاٹرز ہائوس اور کھیتی باڑی کیلئے پولینڈ،رومانیہ سے سستے مزدوروں کی آمدورفت جاری تھی اور ماہرین کے مطابق جرمنی میں کورونا کے پھیلائو کے دوسرے اسباب میں ایک یہ وجہ بھی ہے مگر خوش قسمتی سے جرمنی کا نظام صحت اس قدر مضبوط اور منظم ہے کہ یہاں اس بیماری پر کنٹرول رہا،مگر سردیوں میں آنے والی دوسری لہر کے نتائج سے جرمن حکومت بھی خوف زدہ ہے اور ’’ہلکے لاک ڈائون‘‘ کا اعلان کر چکی ہے،ریسٹورنٹ بار،سینماہال بند ہیں،ماسک اور سماجی میل ملاپ پر حدود کا تعین کیا جا چکا ہےمگر اسکول ابھی تک کھلے ہیں اور اس کے لئے کوئی واضح حکومتی پالیسی نظر نہیں آ رہی ،آن لائن اسکولنگ ابھی زیرِ غور ہے ،سیکڑوں طالبعلم کورونا سے متاثر بھی ہوئے جو والدین کیلئے سخت تشویش کا باعث ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس کے علاج کی دوا بنانے میں دن رات مصروف ہیں، جرمنی میں بھی ممکنہ ویکسین کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، مگردن رات کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ،مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ادھرجرمن شہریوں کا ایک طبقہ تحقیقی اداروں پربے یقینی اور عدم اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آ رہا ہے جن میں زندگی کے مختلف شعبوں کے نمائندے، طالبعلم،ڈاکٹر،دانشور بھی نظر آتے ہیں جو حکومت کی کورونا پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے ،اُن کے مطابق کورونا ایک ’’ڈرامہ‘‘ ہے اور سماجی میل جول میں پابندی ان کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ہے،جرمنی میں پچھلے ہفتوں میں کورونا وبا سے بچائو کے حکومتی اقدامات کے خلاف دوبارہ یہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے کر رہے ہیں، یہ مظاہرے جرمنی کے شہر لائپسگ ، ڈریزڈن ،برلن،فرینکفرٹ میں ہوئے جن میں پولیس کے ساتھ مظاہرین کا تصادم بھی دیکھنے میں آیا، لائپسگ میں مظاہرین کی تعداد 22 ہزار کے قریب تھی ،جب کہ فرینکفرٹ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ،مظاہرین نے کورونا کے خلاف حکومتی احتیاطی تدابیر کی مخالفت کرتے ہوئے ’’ماسک اور درمیانی فاصلے‘‘ کے خلاف ورزی کاعملی مظاہرہ کرتے ہوئے،ریاستی احکامات کی دھجیاں اڑا دیں،پولیس کی مداخلت پر پولیس پر پتھرائو کیا گیا اور نتیجے میں پولیس اور مظاہرین میں تصادم اور سیکڑوں گرفتاریاں عمل میں آئیں،ان واقعات سے زیادہ اہم اور تشویشناک صورت حال حالیہ عوامی مظاہرے نظر آئی جب مظاہرے کا اہتمام جرمنی کے دارالحکومت برلن میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کیا گیا اور کورونا کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر نعرے بازی کی گئی اور پارلیمنٹ ہائوس میں کچھ افراد نے ’’پریس ‘‘ اور’’ر مہمانوں‘‘ کے بھیس میں آ کر ہلڑ بازی کی تحقیقات کے مطابق یہ افراد جرمن سیاسی جماعتAFD کی شہ پر آئے، کورونا ویکسین اور حکومتی اقدامات کے خلاف حالیہ مظاہروں میںAFD اور NDP کے نازی نظریات کے حامی کارکنوں کے علاوہ ہم جنس پرستی کے ہم خیال افراد شامل ہیں،حکومت ان خلاف ورزیوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کر چکی ہےمگر مظاہرین عدالتی نظام اور آزادی انسانی حقوق کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مظاہروں کا اہتمام کر کے حکومت کے لئے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین