• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشیر، صلاح کار یعنی ایڈوائزر مقرر کیے جاتے ہیں۔ ان کو منہ مانگی تنخوائیں اور طرح طرح کی مراعتیں دی جاتی ہیں۔ ایوان اقتدار میں وہ کسی سے کم نہیں ہوتے۔ ویسے بھی جو شخص حاکم وقت کو صلاح مشورے دیتا ہو، لازماً حاکم وقت کے قریب ہوتا ہے۔ وزیر بھی بڑی چیز ہوتے ہیں مگر وہ مشیروں کی مانند جب چاہیں کوئی مشورہ گھڑ کر حاکم وقت سے نہیں مل سکتے۔ حاکم وقت جب تک ان کو ملنے کے لیے نہیں بلاتے وہ حاکم وقت سے نہیں مل سکتے مگر مشیر اور صلاحکار جب چاہیں ان سے مل سکتے ہیں۔ وہ حاکم وقت کو بتاتے ہیں کہ لوگ اب ہارٹ اٹیک سے نہیں مرتے۔ لوگ اب یرقان یعنی ہیپا ٹائٹس سے نہیں مرتے۔ لوگ اب کینسر سے نہیں مرتے۔ لوگ اب تپ دق سے نہیں مرتے۔ لوگ اب ٹائفائیڈ سے نہیں مرتے۔ لوگ اب گردے ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرتے۔ لوگ اب فاقہ کشی سے نہیں مرتے۔ لوگ اب صرف کورونا سے مرتے ہیں۔ حاکم وقت کو مشیر مشورہ دیتے ہیں کہ سرکار آپ دن میں دس مرتبہ ٹیلی وژن پر نمودار ہوکر لوگوں کو خوفزدہ کرتے رہیں۔ ان کوکورونا سے ڈراتے رہیں۔ ان کو گرجدار آواز میں بتاتے رہیں کہ کورونا کے لبادے میں موت ان کے سروںپر منڈلارہی ہے۔ اپنی جان بچائیں۔ گھروں میں چھپ کربیٹھے رہیں۔ زندہ رہوگے تب آٹا چاول چینی کھاسکو گے۔

مرگئے تو مفت ملنے والا آٹا، چاول اور چینی آپ کے کس کام آئے گا؟ مہنگائی کا رونا چھوڑو۔ اپنی جان بچائو۔ زندہ رہو گے تب پانچ سو روپے کلو ملنے والا آٹا کھا سکو گے۔ مرنے والے کے لیے پانچ سو روپے کلو ملنے والا آٹا کس کام کا ؟ حاکم وقت اپنے مشیروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں لوگوں کو ڈرانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پودے لگانے کی مہم کا افتتاح کرتے ہوئے پودوں کے بارے میں کم اور کورونا کے بارے میں زیادہ بولتے ہیں، تب بھی کھانے کے بارے میں کم بولتے ہیں اور کورونا کے بارے میں زیادہ بولتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کے دوران لین دین کی شرائط پر کم اور کورونا کے بارے میں زیادہ بولتے ہیں۔ مشوروں پر چلنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔

حاکم وقت کا ایک مشیر جب بچہ تھا تب اس کے سر کے بال گھنے اور سخت ہوتے تھے اور کھڑے رہتے تھے۔ ماں مشکل سے اس کے سر پر کنگھی کرسکتی تھی۔ بڑا نٹ کھٹ اور شرارتی بچہ ہوتا تھا۔ ایک جگہ اطمینان سے بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ جب دیکھو اچھل کود کرتا پھرتا تھا۔ اسکول میں اس نے لڑکوں کے علاوہ ٹیچر ز کا ناک میں دم کررکھا تھا۔ رشتے داروں اور پڑوسیوں کو اپنی خرمستیوں سے تنگ کررکھا تھا۔ والدین یہ سوچ کر پریشان رہتے تھے کہ آخر اس بچے کا کیا بنے گا۔ ایک نجومی نے اس کے والد کو تسلی دیتے ہوئے کہاتھا ۔’’ آپ کا بیٹا بڑا ہوکر حاکم وقت کو مشورے دیتا رہے گا ‘‘۔

کل کا نٹ کھٹ شرارتی لڑکا آج حاکم وقت کا مشیر ہے۔ آدمی کی ذہنی سطح اور معیار کا پتہ بولنے کے دوران اس کے الفاظ کے چنائو اور لہجے سے چلتاہے۔ اس سے آگے میں کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے کرکٹر ہونے کے ناطے بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے۔ جس جس ملک میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے اس ملک میں عمران خان کے گن گائے جاتے تھے۔ سیاست میں آنے کے بعد عمران خان نے اپنی ٹیم میں ایسے لوگوں کو رکھا جو ہم عام آدمیوں کے لیے اجنبی اور غیر معروف تھے۔ ہم نے ان کو پہلے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ان کو بولتے ہوئے سنا تھا۔ وہ لوگ سیاست کے سین(س) سے بھی واقف نہیں تھے۔ بد اخلاقی اوربدتمیزی کو وہ لوگ سیاست سمجھتے تھے اور اب تک سمجھتے ہیں۔ مجھے نہیں سوجھتا کہ مشیروں کے ٹولے میں کسی ایک نے بھی طالب علمی کے دور میں سیاست میں حصہ لیاتھا اور اپنے کالج اور یونیورسٹی کی یونین میں صدر، جنرل سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ عمران خان کی تشبیہ کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بزدار ان کے وسیم اکرم ہیں، مجھے معنی خیز تشبیہ لگتی ہے۔ اگر اس تشبیہ میں دم ہوتا تو آج غیر مانوس مشیروں کی جگہ وسیم اکرم جیسے لوگ عمران خان کے ایڈوائزر ہوتے۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں کھیل اور کھلاڑی لاوارث ہوگئے ہیں۔ آپ کا یہ شعبہ کھڑے بالوں والے جیسے نٹ کھٹ مشیر نہیں سنبھال سکتے۔ آپ نے جو شعبہ نٹ کھٹ کے سپرد کیا ہوا ہے، وہ بھرپور طریقے سےاس کا ستیا ناس کررہا ہے۔ آپ کو غلط مشورے دے رہا ہے۔ آپ نے کھڑے بالوں والے نٹ کھٹ مشیر کو اس قدر ڈھیل دے رکھی ہے کہ اس کے بھیجے میں جو جو شرارت پھوٹ پڑتی ہے، وہ آپ کے نام نامی اسم گرامی سے وابستہ کردیتا ہے۔ رات اور دن کی طرح عروج اور زوال ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کوئی نفس اس مظہر سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ آپ، نہ آپ کے بعد آنے والے حکمراں، اور نہ آپ سے پہلے آئے ہوئے حکمراں اس قدرتی مظہر سے مستثنیٰ تھے۔ چڑھتے سورج کے مقدر میں غروب ہونا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ لوح کا لکھا عدالتوں کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے عرضی نویس نہیں لکھتے۔

حال ہی میں عمران خان نے جو ش خطابت میں فرمایا تھا کہ، ’’ میں جمہوریت ہوں۔‘‘ یعنی وہ، یعنی عمران خان بذات خود جمہوریت ہیں۔ یعنی جمہوریت کی علامت ہیں۔ جب حاکم وقت جمہوریت کی علامت ہوں، تب لامحالہ رعیت یعنی عوام بھی اپنی ذات میں جمہوریت کی علامت بن جاتے ہیں۔ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے میں فقیر کو وزیراعظم عمران خان کا مشیر یعنی ایڈوائزر لگاتا ہوں۔ مشوروں کی بجائے فقیر ان کو بتائے گا کہ وہ تبدیلی لاسکتے تھے۔ مگر انہوں نے دو ڈھائی برس ضائع کردیے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین