• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وبا جب شروع ہوئی تھی تو میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس میں اس وبا کے چار حتمی نتائج کی بات کی تھی۔

ایک نتیجہ یہ تھا کہ اگر ہم نے فوری طور پر کوئی اقدام نہ اُٹھایا تو یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور کروڑوں لوگ اِس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔

دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں اور لمبے عرصے تک ایک مکمل لاک ڈاؤن کی کیفیت میں رہیں تو وائرس غیرمنتقلی کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ تیسرا اور چوتھا نتیجہ یہ تھا کہ جلد یا بدیر اِس وبا کا کوئی علاج یا ویکسین آئے گی، جو اِس وبا سے ہمیں بچائے گی اور دنیا واپس معمول کی طرف چلی جائے گی۔ پہلا نتیجہ بہت خوفناک اور دوسرا عملی طور پر ناممکن تھا لیکن اگر کوئی اور چیز کام نہ کرتی تو پہلا نتیجہ ہی آہستہ آہستہ حقیقت بن جاتا۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں کورونا وائرس کے خلاف ایک نہیں کئی موثر حفاظتی ٹیکے بن چکے ہیں اور چند ایک موثر علاج بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ چونکہ احتیاط، علاج سے بہتر ہے تو حفاظتی ٹیکہ ہی زیادہ موثر حل ہے۔ جو علاج ابھی تک سامنے آ رہا ہے وہ بھی سو فیصد موثر نہیں ہے۔

اگر سارا زور علاج پر ہوگا تو اِس کا مطلب ہے کہ اسپتالوں پر بوجھ بھی بڑھے گا اور ہمارے اسپتالوں کی حالت ایسی نہیں کہ وہ اپنی استعداد سے زیادہ مریضوں کا بوجھ برداشت کر سکیں، اِس لئے زیادہ امید ویکسین سے ہی جڑی ہے کہ وہ جلد اِس وبا کو ختم کر دے۔

ویکسین پر بھی پہلے ایک کالم میں طویل گفتگو ہو چکی ہے لیکن مختصراً کسی بھی حفاظتی ٹیکے کی صحت کے محکمات کی طرف سے منظوری ملنے سے پہلے اُسے تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

عام طور پر اِن مراحل سے گزرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں مگر چونکہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ کردیا ہے اور دنیا بھر کی حکومتیں 200کھرب ڈالر صرف اِس وبا کے معاشی دھچکے کا ازالہ کرنے کے لئے لگا چکی ہیں، اِس لئے کورونا وائرس کی ویکسین جلد از جلد بنانے کے لئے بہت زیادہ دباؤ اور بہت زیادہ پیسہ لگایا جا رہا ہے۔

اِس وقت پانچ سے زیادہ ویکسینز آخری مرحلہ پورا کر رہی ہیں اور پچھلے چند ہفتوں میں ایک فائزر اور ایک موڈیرنا کی ویکسین کے فیز تھری رزلٹ سامنے آئے ہیں جس میں کم از کم اِن دو حفاظتی ٹیکوں کا موثر پن 90فیصد سے زیادہ ہے۔

دوسرے لفظوں میں اگر سو لوگوں کو یہ حفاظتی ٹیکہ لگتا ہے تو 90فیصد سے زیادہ لوگوں کو کورونا وائرس سے حفاظت ملے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں بہت کامیاب حفاظتی ٹیکے ہیں۔ پہلے یہ سوچا جا رہا تھا کہ اگر حفاظتی ٹیکہ 50فیصد مؤثر بھی ہوا تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

حفاظتی ٹیکے انسان کی قوتِ مدافعت کی ایک طرح سے ٹریننگ کرتے ہیں تاکہ جب وائرس اُن کے جسم میں داخل ہو تو وہ فوراً سے پہچان کر اُس کو ختم کردیں۔ یہ ٹریننگ تین طرح کی ویکسین سے دی جاتی ہے۔ ایک میں اِس وائرس کی مردہ یا کمزور شکل کو ٹیکے کے طور پر لگایا جاتا ہے تاکہ جسم اِسے پہچان بھی لے اور وہ وائرس نقصان بھی نہ پہنچائے۔ چین اِس طرز کی ایک ویکسین بنا رہا ہے۔

دوسرا حفاظتی ٹیکہ ایک عام وائرس کو، جو نقصان دہ نہیں ہے، کورونا وائرس کی طرز میں ڈال دیا جاتا ہے اور اِس سے بھی جسم کورونا وائرس کو پہچاننے اور اِس سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔

انڈیا، آکسفورڈ اور یورپی ممالک زیادہ تر اِس طرح کی ویکسین بنا رہے ہیں اور چین کی بھی ایک ویکسین اِس طرح کی ہے۔ جو ویکسینز امریکی کمپنیوں موڈیرنا اور پی فائزر نے بنائی ہیں، یہ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی وائرس کی بجائے اُس کا کوڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کو ہانڈی بنا کے دینے میں زیادہ ٹائم لگتا ہے اور ترکیب بتانے میں کم لیکن اِس نئی ٹیکنالوجی کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کو بہت ہی کم درجہ حرارت پر سٹور کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں شاید یہ اتنی موثر نہ ہو۔

آنے والے دنوں میں مزید ویکسینز کا ڈیٹا سامنے آئے گا اور اب امید ہے کہ ہم اِس وبا کے اختتام کی طرف جائیں گے لیکن دنیا بھر میں ویکسین دینا، لگانا اور اُس کو بنانا بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ویکسین کی منظوری سے پہلے ہی اُس کو بڑے پیمانے پر بنانا شروع کر دیا گیا تھا تاکہ منظوری کے بعد وقت کا ضیاع نہ ہو۔ امید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ویکسینز کی عرضی منظور ہو جائے گی۔

ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں ویکسین آئے گی بھی یا نہیں؟ اُس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ ہمیں بحیثیت ملک اپنی ترجیحات پر سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سچ بات یہ ہے کہ نہ تو ہم ویکسین بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی تمام آبادی کیلئے اُس کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں اور ہمیں اِس معاملے میں بھی دوسرے ممالک کی امداد پر انحصار کرنا ہوگا۔ کیا دوسرے ممالک ہماری امداد کریں گے؟ دراصل اُن کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

یہ وبا صرف تب ختم ہو گی جب دنیا بھر میں اِس وائرس کو ختم کیا جا سکے گا۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کو یہ ویکسین لگے۔ جب تمام ممالک میں کم از کم ساٹھ فیصد لوگوں کو یہ ویکسین لگ جائے گی تو حالات تقریباً نارمل کی طرف آنا شروع ہو جائیں گے۔

کالم مکمل کر چکا تو آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنائی ویکسین کے حوالے سے رپورٹ جاری ہوئی کہ یہ ویکسین بھی اِس وبا کے کیخلاف موثر ہے۔ یہ نہ صرف اب تک سامنے آنے والی ویکسینز سے سستی ہے بلکہ اِسے بہت کم درجہ حرارت پر سٹور کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

آکسفورڈ کی طرف سے یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ یہ ویکسین تمام ممالک کو برابری کی سطح پر دیں گے۔ باقی ویکسینز کی تقسیم بھی برابری اور انصاف کے تقاضے پر ہی ہونی چاہئے۔

امیر اور طاقتور لوگوں کی بجائے وہ لوگ جن کو اِس وائرس سے زیادہ خطرہ ہے، مثلاً بوڑھے یا پہلے سے بیمار یا پھر وہ لوگ جو فرنٹ لائن پر اِس وائرس سے لڑ رہے ہیں یعنی ڈاکٹرز اور اور پیرا میڈیکل اسٹاف وغیرہ، اُن کو یہ ویکسین پہلے ملنی چاہئے۔

وبا واقعی ختم ہونے والی ہے لیکن اِس کو ختم ہوتے ہوتے ایک اور سال لگ سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگلی سردی سے پہلے دنیا کافی حد تک نارمل ہو جائے گی مگر تب تک ہم پر وہی ذمہ داری ہے کہ ہم احتیاط کریں، ایس او پیز پر عمل کریں اور اِس وائرس کو پھیلنے سے روکیں۔

تازہ ترین