• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمد ہمایوں ظفر

آج کل پوری دنیا میں ہر طرف کورونا وبا کا تذکرہ ہے، جس کے وار سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے،تو بہت سے بیمار اور بہت سے بچائوکی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس وبا نے جہاں بہت سے لوگوں کی جان لی، وہیں اس کی وجہ سے کیے جانے والے لاک ڈائون کے باعث لاتعداد مسائل نے بھی جنم لیا۔ زیر ِنظر واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےکہ لاک ڈائون کے دوران اللہ رب العزّت نے کس طرح غیب سے میری مدد فرمائی۔

آج سے تقریباً دس سال پہلے میں ایک خدا ترس انسان، عثمان صاحب کے گھر ملازم تھا۔ وہ لوگ مجھے گھر ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے، کبھی ملازم نہیں سمجھا۔ عثمان صاحب کی والدہ کو میں بھی امّی کہہ کر پکارتا، وہ فالج کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھیں، میں اُن کی دیکھ بھال کرتا، وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ عثمان صاحب کے مرحوم والد بھی نیک طبیعت، اعلیٰ ظرف انسان تھے، مجھے اپنا بیٹا کہتے۔ میرے گھریلو حالات ٹھیک نہیں تھے، مکان بھی کرائے کا تھا۔ ایسے میں اکثر تن خواہ کے علاوہ بھی گاہے بہ گاہے میری مدد کردیا کرتے۔ گھر کے دیگر لوگوں کا رویّہ بھی بہت اچھا تھا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود مجھے ایک دن اُن کی نوکری چھوڑنی پڑی۔ ہوا یوں کہ اچانک مجھے مہروں کی تکلیف شروع ہوگئی۔ 

ڈاکٹر کو دکھایا، تو اس نے دوائوں کے ساتھ خصوصی ہدایت کی کہ وزن اٹھانے والا کام ہرگز نہ کریں۔ مَیں بہت پریشان ہوا کہ میرا تو زیادہ تر کام ہی وزن اٹھانے کا ہے۔ عثمان صاحب کی فالج زدہ والدہ کوکہیں آنا جانا ہوتا، تو انہیں اٹھا کر گاڑی تک لانا ہوتا تھا، اُن کی رہائش بھی فلیٹ میں تھی، مَیں اپنی جگہ بہت پریشان تھا، ایک طرف اُن کے بے شمار احسانات تھے اور دوسری طرف میری بیماری اور پھرمیرا سب سے بڑا مسئلہ معاش کا تھا کہ یہاں کی نوکری چھوڑ کرکیا کروں گا۔ اگر یہ کام چھوڑ دوں، تو میرے پاس تو کوئی دوسرا ذریعۂ معاش بھی نہیں۔ اور پھر اتنے اچھے لوگوں کو چھوڑ کر جانے کو دل بھی نہیں چاہتا تھا۔ خیر،بہت سوچ بچار کے بعد ایک روز میں نے عثمان صاحب کی والدہ کو بتادیا کہ ’’مجھے مہروں تکلیف ہوگئی ہے اور ڈاکٹر نے وزن اٹھانے سے منع کیا ہے، لہٰذا اب میں آپ کا ساتھ دینے سے قاصر ہوں۔‘‘

انہیں ساری صورتِ حال بتا کر مَیں گھر آگیا۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹیاں اُس وقت چھوٹی تھیں اور بیٹا ساتویں کلاس میں تھا۔ نوکری چھوڑنے کے بعد میں نے ایک ٹھیلا لے لیا، جس پر بچّوں کی کھانے پینے کی چیزیں لگاکر اسکول کے آگے بیٹھ گیا۔ جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہونے لگی، تین سال بعد بیٹا میٹرک کے بعد گھر کے حالات دیکھ کر ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازم ہوگیا۔ اس طرح پانچ برس گزرگئے۔ اس دوران میرا عثمان صاحب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، نہ ہی انہوں نے کبھی فون کیا۔ خیر، بیٹے کے کام پر لگنے سے اتنا ہوا کہ گھر کا کرایہ، بجلی کے بل وغیرہ وقت پر ادا ہونے لگے۔ لشتم پشتم گزر بسر ہورہی تھی کہ کورونا کی وبا آگئی۔ 

حکومت نے لاک ڈائون کا اعلان کردیا، اسکولز، کالجز، دفاتر اورکارخانے بند ہوگئے۔ اسکول بند ہونے سے میرا بھی کام ختم ہوگیا اور بیٹے کو بھی یہ کہہ کر فیکٹری سے نکال دیا گیا کہ کورونا ختم ہوجائے تو واپس آجانا۔ میرے پاس کوئی جمع پونجی تو تھی نہیں کہ آرام سے گھر بیٹھ جاتا۔ لاک ڈائون کے دوران میں نے کہاں کہاں کی خاک نہیں چھانی، کیا اپنا کیا پرایا، کہیں سے کچھ مل جاتا، تو وقتی طور پر بچّوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا۔ اس دوران حکومت نے بڑے بڑے اعلان کیے کہ گھر کا کرایہ نہیں لیا جائے گا، راشن ملے گا۔، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بھی کئی حکومتی اہل کاروں کو امداد کے حصول کے لیے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دی، مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ادھر دکان دار کے 12؍ہزار روپے کا مقروض ہوگیا اور اس نے مزید ادھار دینے سے انکار کردیا۔

ایک دن میں صبح کا نکلا شام کو مایوس گھر لوٹا، تو میری بیوی کچھ زیادہ پریشان نظر آئی، میں نے وجہ پوچھی، تو بتایا کہ مالک مکان کی بیوی آئی تھی، کہہ رہی تھی کہ آپ کی طرف چار ماہ کاکرایہ 28؍ہزار روپے بنتا ہے، وہ ادا کریں، ورنہ ہمارا مکان خالی کردیں۔‘‘ میں نے بیوی کو تسلّی دی اور کہا کہ ’’اللہ ہر انسان کے اِک اِک پل سے باخبر ہے، وہ بہتر کرے گا۔‘‘ بیوی کو تو میں تسلّی دے رہا تھا، لیکن میں خود بہت پریشان تھا۔ مجھے اللہ کی مدد کے سوا کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ رات کو میں نے خوب گڑگڑا کر اپنے ربّ سے دعا کی ’’باری تعالیٰ! تُو سمیع و بصیر ہے، تُو ہی رازق و مالک ہے۔ میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے، ہر طرف سے مایوس ہوگیا ہوں، تمام عزیز رشتے داروں کو آزمالیا، مشکل کی اس گھڑی میں میرے مالک! تُو ہی ہے جو سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ 

مجھ پر بھی کرم فرمادے۔‘‘ دعا مانگنے کے بعد دل کو کافی سکون ملا اور میں سوگیا۔ فجر کےوقت آنکھ کُھلی، تو نمازپڑھ کر باہرچلا گیا۔ ہر طرف سنّاٹا اورہُو کا عالم تھا۔ گھر سے یہ سوچ کرنکلا تھا کہ کسی نہ کسی کو تو میری حالت پر ترس آہی جائے گا، لیکن کسی کے آگے شرم کے مارے کچھ کہنے کی ہمّت نہیں ہورہی تھی۔ الغرض، پورا دن گزر گیا۔ مَیں ہر طرف سے جواب ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ کئی بار مایوسی طاری ہوئی، تو فوراً اللہ کا فرمان یاد آجاتا، جس کا مفہوم ہے کہ ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقیناً رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو کافر ہوتے ہیں۔‘‘ تو میں اس کی ذات سے مایوس کیوں ہوں، لیکن دوسری طرف یہ سوچ کر پریشان ہورہا تھا کہ مالک مکان کو چار مہینے کا کرایہ دینے کے لیے اٹھائیس ہزار تو کیا، اٹھائیس روپے بھی نہیں ہیں۔ 

وہ میری بے عزتی کرے گا، جو مجھ جیسے انسان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا، لیکن بے شک میرا اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلّت دے۔ ان ہی سوچوں میں جیسے ہی گھر داخل ہوا، بیوی نے دیکھتے ہی کہا کہ ’’عثمان صاحب نے فون کیا تھا،وہ آپ کا پوچھ رہے تھے۔‘‘بیوی کی بات سُن کر مَیں نے فوراً عثمان صاحب کا نمبر ملایا، سلام دعا اور خیرخیریت کے بعد انہوں نے مجھ سے میرے گھر کا ایڈریس لیا اورکہا کہ ’’ایک گھنٹے میں تمہارے پاس آرہا ہوں، امّی نے کچھ چیزیں دی ہیں، تمہیں دینے کے لیے۔‘‘ خیر، ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئے، تو اُن کے ہاتھ میں راشن کا ایک بڑا تھیلا تھا، تھیلا مجھے پکڑاتے ہوئے ایک سفید رنگ کا لفافہ بھی دیااورخیر خیریت کی چند باتوں کے بعد دعائوں میں یاد رکھنے کا کہہ کر چلے گئے۔ انہوں نے مجھے شکریہ ادا کرنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ 

اُن کے جانے کے بعد میں نے تھیلا چیک کیا، تو اس میں راشن کے علاوہ کچھ کپڑے وغیرہ بھی تھے اورپھرجب سفید لفافہ کھولا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا، اس میں پورے چالیس ہزار روپے تھے۔ میں نے اپنے رب سے اتنی ہی رقم کی دعا مانگی تھی، یعنی اٹھائیس ہزار کرائے کے لیے اور بارہ ہزار روپےدکان والے کے لیے۔ اُس وقت مجھے ایسا لگا کہ عثمان صاحب کی صُورت اللہ تعالیٰ نے کوئی فرشتہ بھیجا ہے۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ مَیں نے فوراً سجدے میں گر کر، رو رو کے اپنے ربّ کریم کا شُکر ادا کیا کہ اس نے میری لاج رکھی۔ عثمان صاحب اور اُن کے اہل ِ خانہ کے لیے دل سے دُعائیں نکلیں۔ بے شک، میرا ربّ اپنے بندوں سے نیکی کے کام کرواتا ہے۔ عثمان صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ میری دعائوں میں ہمیشہ شامل رہیں گے۔ میں اُن کی اس نیکی کو مرتے دَم تک نہیں بھولوں گا۔

دوسری مدد نیکی کی صُورت مالکِ مکان نے کی، جب میں مکان کا کرایہ دینے گیا، تو اس نے بیس ہزار روپےلیے اور کہا کہ ’’آٹھ ہزار کا میری طرف سے راشن لے لینا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر راشن نہیں۔‘‘ بے شک اپنے پکارنے والوں کو میرا رب مایوس نہیں کرتا۔یہ وہ توکّل ہے، جو ایمان کی روح ہے۔ ہمیں ہرحال میں اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے اورکبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اپنے بندے پر اتنا بوجھ ڈالتا ہے،جتنی اس میں طاقت ہوتی ہے۔ (شیر افضل اعوان، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین