• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدثر اعجاز، لاہور

4مئی 1799ء کو بہادر سپہ سالار، ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد برِصغیر میں برطانوی راج کے راستے میں حائل آخری بڑی رکاوٹ بھی دُور ہوگئی۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ٹیپو سلطان ایک بہادر سپہ سالار ہی نہیں، بلکہ ایک عوام دوست حکمران بھی تھا۔ اُس نے اپنے عہد میں کئی ایسی اصلاحات کیں، جو وقت کے اعتبار سے جدید اور عوام دوست تھیں۔

سلطان فتح علی ٹیپو، 20نومبر1750ء میں بھارت کے شہر بنگلور کے قصبہ دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ دادا کے نام کی مناسبت سے فتح علی نام رکھا گیا، مگر آرکوٹ کے بزرگ، ٹیپو مستان اولیا سے عقیدت کے باعث ٹیپو سلطان کہلائے۔ آپ کے والد، حیدر علی کے پَردادا افغانستان سے ہجرت کرکے دکن میں آباد ہوئے۔ بعض مورخین کے مطابق ٹیپو سلطان کا خاندان عرب سے ہجرت کرکے افغانستان آبا دہوا۔ ان کی والدہ فخرالنساء کازبا کے گورنر کی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان بھی عربی النسل تھا۔ جنوبی ہندوستان میں سلطنتِ میسور کی بنیاد ایک ہندو خاندان ودیار نے 1399ء میں رکھی، جوآخری مغل بادشاہ اورنگزیب کے دورِ حکومت تک ایک آزاد ریاست کے طورپر قائم رہی۔ ٹیپو سلطان کے والد، حیدر علی نے 1752ء میں سلطنتِ میسور کی ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے کرتے فوج کے سپہ سالار بن گئے۔ 

میسور پر ان دنوں کرشناراجاودیار دوم کی حکومت تھی، جس کی نااہلی کے باعث سلطنت کو بہت سے اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا تھا۔ راجا ان مشکلات کا سامنا کرنے سے یک سر قاصر تھا، جس پر حیدر علی نے مجبوراً راجا کا وظیفہ مقرر کر دیا اور سلطنت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ حیدر علی کو اپنی سلطنت اور عوام کی فلاح وبہبود میں گہری دل چسپی تھی۔ اُسے اپنے پیش رو حکم رانوں کی قابلیت کا بھی بخوبی علم تھا، اس لیے اپنے بیٹے ٹیپو کی تربیت ایک ولی عہد کے طور پر کرنا چاہتا تھا کہ اس کے بعد اُسے سلطنت کے امور احسن طور پر بجالانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چناں چہ بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے عصری علوم کی معزز ترین شخصیات کو خصوصی طور پر مقرر کیا۔ 

ٹیپو کو علاقائی زبان کنادا کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اردو زبان میں بھی لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ علاوہ ازیں، قرآن حکیم اور حدیث کی تعلیم کے لیے بھی جیّد عالم مقرر کیے گئے۔ حساب، سائنس کے مضامین اورجنگ وحرب کی تعلیم فرانسیسی اساتذہ سے حاصل کرنے کے ساتھ ہی والد کے ساتھ جنگی مہمات میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ جب ٹیپو کی عُمر 24سال ہوئی، تو باپ نے بیٹے کی شادی کے لیے ارکوٹ کے معزز امام بخشی کی بیٹی، نوایت خاتون کا انتخاب کیا، مگر ٹیپو نے اپنے مرحوم جرنیل کی بیٹی رقیّہ بانو کو منتخب کیا، اور پھر یوں دونوں ہی بیاہ کر محل آگئیں۔ نوایت خاتون کو ’’بادشاہ بیگم‘‘ کا لقب ملا، تاہم ٹیپو کی محبوب بیوی رقیہ بانو ہی رہی۔

1782ء میں حیدر علی کی وفات کے بعد ٹیپو سلطان نے32سال کی عمر میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اُس دور میں برِصغیر پر مغل حکومت کی گرفت کم زور ہوچلی تھی اور اسے بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا تھا۔ ایک طرف انگریز، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اپنے پائوں جمارہے تھے، تو دوسری طرف آزاد ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف تھیں۔ ریاستِ میسور کو بھی مرہٹوں، انگریزوں اور نظامِ دکن کے سہ فریقی اتحاد کی صورت ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، ٹیپو سلطان نے ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ 

ٹیپو سلطان، تاریخ کے اوراق میں ایک بہادر سپہ سالار کی حیثیت سے تو آج بھی زندہ ہے، مگر بحیثیت عوام دوست حکمران، اُس کے طرزِحکومت پر نہ صرف بہت کم لکھا گیا، بلکہ کئی مخصوص گروہوں نے تو اُس کے دورِ حکومت کی تاریخ مسخ کرنے بھی کافی کوششیں کیں، لہٰذا ٹیپوسلطان کے طرزِ حکومت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ مستند تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت حکم ران، ٹیپو کی تمام تر جِدوجہد دو مقاصد کے حصول کے لیے تھی۔ اوّل قوم کی خوش حالی، دوم ریاست کی خودمختاری۔ اس کی ریاست میسور میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ ہر ذات ونسل کے ہندو، عیسائی اور دیگر قوم و مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد آباد تھے، جن کی فلاح و بہبود کی ذمّے داری ٹیپو پر عاید تھی۔ 

وہ ایک بہادر سپہ سالار تھا اور اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھا کہ اس کی رعیت میں شامل ہندو اور مسلمان قوموں کی فلاح وبہبود اور اتحاد کے بغیر سلطنت کی بقا ممکن نہیں۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام پر جب مرہٹوں نے جنگوں کے دوران اپنے ہی مندروں کو لُوٹا اور قیمتی بُت چُرا کر لے گئے، تو ہندو جنتا اپنی شکایت لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوئوں کو بھی اپنے حاکم پر مکمل اعتماد تھا۔ ٹیپو نے اُن کی شکایت پر نہ صرف مرہٹوں کی بھرپور مذمت کی، بلکہ مندر کی تعمیرِنو کے لیے مالی امداد بھی جاری کی۔ مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ مساجد اور مدارس کے علاوہ ڈیڑھ سو سے زائد مندر اور ہندو عبادت گاہوں کے لیے حکومت کی جانب سے معقول مالی امداد دی جاتی تھی۔ 

قابلیت اور وفاداری کی بنیاد پر بہت سے ہندو دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ مثلاً کرشنارائو، امورِخزانہ، شامیا لینگر، پولیس کے نگران، جب کہ مول چند اور سوجن رائے، مغل دربار میں سفیر تعینات تھے۔ دیگر ہندو امراء میں پُرنیا اورصوبا رائو وغیرہ بھی اہم عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اس کی ایما پر بہت سے ہندوئوں کو زبردستی مسلمان کیا گیا۔ اس حوالے سے معروف اسکالر،ڈاکٹر بی آر پانڈے اپنے تحقیقی مقالے ’’اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان‘‘ میں واضح طور پر اس الزام کی تردیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ٹیپوسلطان کے دَور میں ہندوئوں کے قتلِ عام یا انہیں زبردستی ہندو بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اگرچہ انفرادی طور پر کچھ ہندوئوں نے سلطان کے عہد میں اسلام قبول کیا، جس کی وجوہ معاشرتی یا سماجی ہوسکتی ہیں، مگر حکومتی سختی یا زبردستی نہیں۔‘‘ 

ڈاکٹر پانڈے ہی کے مطابق، ’’سلطان ٹیپو نے اپنے عہد میں بہت سی معاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ کیا۔ مثلاً کالی دیوی کی بھینٹ کے لیے انسانی جانوں کی قربانی کا خاتمہ، شراب، بھنگ اور دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی کے ساتھ زراعت کے شعبے پر خصوصی توجّہ دی گئی۔ آب پاشی کا مربوط نظام قائم کرکے ڈیم تعمیر کیاگیا، جو آج بھی موجود ہے۔‘‘ ٹیپو نے امورِسلطنت کی انجام دہی کے دوران مختلف امرائے سلطنت اور وزراء کو جو خطوط لکھے، ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں ولیم کریک نے کرکے 1811ء میں برطانیہ سے شایع کیا۔ 

ان خطوط کے اندازِ تحریر اور ٹیپو کے احکامات پر تبصرہ کرتے ہوئے مترجم لکھتا ہے ’’سلطان بغیر کسی شک وشبے کے، پورے اعتماد کے ساتھ حکم جاری کرتا تھا۔ اس کے الفاظ واضح اورسنجیدہ ہوتے۔ حقیقتاً سلطان نہ صرف اسرارِ حکمرانی سے بخوبی واقف تھا، بلکہ دوسرے حکمرانوں کے طرزِ حکومت کا بغور مشاہدہ کرکے اُن کے اچھے اصول اپنالیتا تھا۔‘‘میسور کی جنگ میں ٹیپو کے خلاف لڑنے والاکیپٹن، ایڈورڈ امورِ سلطنتِ میسور کے بارے میں اپنے ایک خط میں لکھتا ہے،’’میسور میں کاشت کاری عروج پر ہے اور صنعتیں بھی بھرپور پیداوار دے رہی ہیں، سڑکیں کشادہ اور ان پر چلنے والے خوش حال اور مطمئن نظر آتے ہیں۔‘‘

ٹیپو سلطان ایک بہادر اورذہین سپہ سالار ہونے کے ناتے اپنے دشمنوں کا سامنا انتہائی جرات، دلیری اور بہترین جنگی منصوبہ بندی سے کرتا تھا۔ اس کی افواج پورے برصغیر میں اپنی شجاعت اور جواں مردی کےسبب مشہور تھیں۔ ٹیپو سلطان برطانوی سامراج کی ریشہ دوانیوں سے اچھی طرح واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کا مقابلہ انگریزوں سے ہے، جنہیں نہ صرف علاقائی غداروں کی مدد حاصل ہے، بلکہ وہ جدید ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں انگریزوں کے بعد فرانسیسی دوسری طاقت ور قوم تھے۔ 

فرانسیسی فوج اپنے بہادر سپہ سالار، نپولین بونا پارٹ کے زیرِقیادت مختلف محاذوں پر برسرِپیکار تھی۔ ہندوستان میں بھی کسی حد تک فرانسیسی افواج موجود تھیں۔ ٹیپو سلطان نے بھی بہت سے فرانسیسی فوجیوں کو اپنی سپہ کی تربیت کے لیے مامور کر رکھا تھا، مگر جب اس نےاپنے وفود فرانسیسی بادشاہ لوئس XVIکے دربار میں بھیجے اور اس سے انگریزوں کے خلاف مدد مانگی، توچوں کہ فرانس خود اُن دنوں داخلی و خارجی مشکلات میں گِھرا ہوا تھا۔ نپولین مصر میں برسرِپیکار تھا، تو ٹیپو سلطان کی دعوت پر اُس نے ہندوستان آنے کا وعدہ تو کرلیا، مگر ایفا نہ کرسکا۔ اگر ٹیپو کا منصوبہ کام یاب ہوجاتا، تو شاید آج ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔

ٹیپو کے ناقدین یہاں اُس پر ایک اور الزام عاید کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ٹیپو بیرونی حملہ آوروں کے خلاف نہ تھا، وہ صرف انگریزوں کے خلاف تھا، کیوں کہ فرانسیسی افواج کی ہندوستان آمد کے بعد اُن کا یہاں سے جانا ناممکن تھا اور پھر برِصغیر کے عوام کو حکومتِ برطانیہ کے بجائے فرانس کی غلامی کرنی پڑتی۔ بادی النظرمیں اس بات میں کسی حد تک وزن نظر آتا ہے، مگر ایک ایسا سپہ سالار اور حکم ران، جس کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج سے ہو اور وہ ہر قیمت پہ اپنی ریاست کا دفاع کرنا چاہتا ہو، اس کے پاس اپنے دفاع کے لیے دشمن کے دشمن سے مدد حاصل کرنے کے سوا کون سا راستہ بچتا تھا۔ سو، ٹیپو نے بھی یہی کیا، جو اس کی دُور اندیشی اور معاملہ فہمی کی دلیل ہے۔ اس نے اپنے عہد میں جدید جنگی سازوسامان کی تیاری کے لیے ایک تجربہ گاہ قائم کی۔ آہنی میزائلوں کی ایجاد بھی اُسی دور میں ہوئی ۔

ایک تحقیق کے مطابق، ٹیپو کی فوج میں 5000سپہیوں پر مشتمل میزائل بریگیڈ موجود تھی۔ بہرحال، یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی ہند میں انگریزوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹیپو سلطان ہی تھا، اس کی بہادر افوج اور فرانسیسی حکومت سے دوستی، برطانوی سامراج کے لیے ایک بڑے خطرے کا پیش خیمہ تھی، جس کا سدِباب ضروری تھا۔ حکومتِ میسور اور انگریزوں کے مابین چار بڑی جنگیں لڑی گئیں، آخری دو جنگوں میں ٹیپو نے ایک حکمران سپہ سالار کی حیثیت سے شرکت کی۔ ٹیپو کی بدقسمتی تھی کہ انگریزوں کو مرہٹوں اور نظامِ دکن کی پشت پناہی بھی حاصل تھی، جب کہ ٹیپو کو صرف اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا پڑا۔ 

تیسری جنگِ میسور میں اپنے عوام کو قتلِ عام سے بچانے کیے لیے ٹیپو نے انگریزوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ ٹیپو کے دل میں اس شکست کا داغ موجود رہا اور انگریزوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے ٹیپو کی شہادت سے پہلے جنگ بندی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا، لہٰذا ایک فیصلہ کُن جنگ ناگزیر تھی۔ بالآخر، لارڈ ویلزلے نے ٹیپو کو پیغام بھیجا کہ وہ برصغیر میں دوسرے ضمیر فروشوں کی طرح انگریزوں کا اتحادی بن جائے اور اپنی افواج کا کچھ حصّہ ان کی مدد کے لیے بھیج دے۔ ٹیپو جو ایک غیرت مند حکم راں تھا، اور جس کا یہ قول تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اس نے غلامی کی اس زندگی پر شہادت کو ترجیح دی۔

تازہ ترین