• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نور خالد

کہتے ہیں،’’عورت کا دماغ اسپیگیٹی(سویّوں)اور مَرد کا ویفل(خانے دار روغنی نان)کی طرح ہوتا ہے۔‘‘عورت بیک وقت متعدّد کام کر سکتی ہے، کئی امور پر سوچ سکتی ہے، مگر مَرد ایسا نہیں کر سکتا۔ ویفل کے خانوں کی طرح اس کے کام یا سوچ کا ایک وقت میں ایک ہی خانہ متحرک ہوتا ہے۔ اگر اُسے ایک سے زائد کام کہہ دیے جائیں، تو وہ گھبرا جاتا ہے اور غلطیاں کرنے لگتا ہے۔ 

مگر دیکھا گیا ہے کہ آج خواتین بھی ملٹی ٹاسکنگ میں ناکام نظر آرہی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ذہنی یک سوئی کا فقدان ہے۔ زندگی جو پہلے ہی تیز قدم ہوچُکی ہے، وہاں سوشل میڈیا کے بڑھتے رجحان نے خواتین کو ایک پاؤں پر کھڑے رہنے کی بجائے ہوا میں معلّق کر دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر قدم زمین پر جمے نہ رہیں، تو ہم منہ کے بل ہی گریں گے۔ چناں چہ ذیل میں چند ایسے رہنما اصول درج کیے جارہے ہیں، جن پر عملِ پیرا ہوکر آپ ’’سُپروومین‘‘ کہلائیں گی۔

٭وقت کی تقسیم:سب سے پہلا اصول وقت کی درست تقسیم ہے کہ آپ نےکون سا کام کس وقت کرنا ہے، کب سونا، جاگناہے۔جسمانی مشقت اور ذہنی مشق کے لیے کتنا وقت مقرّر کرنا ہے۔چاہےآپ خاتونِ خانہ ہوں یا ملازمت پیشہ تقریباً تمام کام ہی ذہنی اور جسمانی توازن مانگتے ہیں،مگر اس بات کا تعیّن آپ نے کرنا ہے کہ کتنی جسمانی یا ذہنی مشقّت کے بعد آپ خود کو تازہ دَم، ہشاش بشاش اور چاق چوبند محسوس کرتی ہیں اور کتنی دیر کے بعد تھکی ہوئی، پژمردہ اور لاغر،لہٰذا اس اعتبار سے اپنے روزمرّہ کا معمول ترتیب دیں اور اس پر عمل بھی یقینی بنائیں۔

٭کھانے پینے کا شیڈول: آپ خود کواُس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر یک سو، تن درست و توانا محسوس کریں گی، جب متوازن، صحت بخش غذا، درست وقت پر درست انداز اور درست مقدار میں استعمال کی جائے گی۔ ہر کوئی اپنے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ وہ عُمر کے کس حصّےمیں ہے اور اسے کیا کیا کھانا چاہیے۔ 

کس چیز سے الرجی ہے، کس غذا سے اسے طاقت اور تازگی محسوس ہوتی ہے اورکس سے کم زوری ،لہٰذا اسی مناسبت سے اپنے کھانے پینے کاچارٹ بنائیں۔نیز، اپنی عُمر، قد اور سرگرمیوں کے لحاظ سے کھانا کھائیں۔یہ ذہنی اور جسمانی صحت کا کلیدی اصول ہے۔ کم کھانا اور کم سونا عبادت ہے۔

٭اہلِ خانہ،دوست احباب اور رشتے داروں کو وقت دیں:آج کل یہ سب سے اہم مسئلہ بن چُکا ہے کہ ہماری توجّہ اپنے خاندان اور خود سے ہٹ کر دیگر غیر ضروری باتوں پر مرکوز ہوگئی ہے۔ جس سے ہم ان چیزوں اور لمحوں کا لُطف بھی نہیں اُٹھا پاتے، جو ہمیں توانا رکھتے ہیں، زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ خاندان، دوست احباب اور پڑوسی یہ وہ افراد ہیں، جن کے ساتھ ہم اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ گزارتے ہیں اور ان کے بغیر ہماری زندگی کم و بیش نامکمل اور ادھوری ہے، لہٰذا ان کے ساتھ نہ صرف روابط قائم رکھنے،بلکہ مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے اپنی مصروف ترین زندگی سے بہترین وقت نکالیں کہ ان سے قطع تعلق آپ کو قنوطیت اور ذہنی فشار کی جانب لے جائے گا۔

٭دینی اور دُنیاوی معاملات میں توازن برقرار رکھیں:دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنی دینی اور دُنیاوی سرگرمیوں میں بھی توازن نہیں رکھ پاتے۔ ہمارا دین ہماری اساس ہے۔ ہمارے وجود اور ہماری بقا کا انحصار ہمارے رب سے رابطے پر ہے۔ عموماً کسی آفت یا مصیبت کی صُورت میں ہم مذہب کی جانب بہت زیادہ مائل ہو جاتے ہیں اور مصیبت ٹلتے ہی پھر دُنیاوی کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی اس کے بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ یعنی مشکل پڑتے ہی ہم اللہ سے ناراض ہوجاتے ہیں اور اسے راضی کرنے کی بجائے اس سے دُوری اختیار کر لیتے ہیں۔ 

یہ دونوں ہی طریقے غلط ہیں۔ اپنے رویّے میں استقلال پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ زندگی میں اُتار چڑھاؤ تو آتے ہیں۔ یہ کبھی یک ساں یا ہم وار نہیں رہتی اور یہی اس کا مزہ ہے۔ یک سانیت تو عموماً اکتاہٹ پیدا کرتی ہے، مگر رب سے اپنے رابطے کو اٹوٹ اور مستحکم بنانا نہ صرف ہمیں ذہنی یک سوئی دے گا، بلکہ ہماری دُنیا و آخرت دونوں سنوار دے گا کہ رب راضی تو سب راضی۔

یاد رکھیے، وقت کا کام گزرنا ہے۔البتہ اسے ثمر بار کون بناتا ہے اور بے وقعت کون، یہ ہمارے اوپر منحصر ہے۔گرچہ ذہنی یک سوئی کا حصول مشکل امر ہے ،مگر ناممکن نہیں۔ بس ہمیں صبر اور برداشت کے ساتھ مستقل مزاجی سے درج بالا باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ ذہنی یک سوئی دُنیاوی اور دینی کام یابی کی کنجی ہے۔ 

ہم کئی خواتین کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ یہ ایسے کیسے کر لیتی ہیں، تو جس دِن آپ نےذہنی یک سوئی حاصل کرلی، دوسرے بھی آپ کو دیکھ کر یہی سوچیں گے کہ آپ ایسے کیسے کر لیتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نقطے سے شروع کر کے لکیر بنائیں اور لکیر سے خاکہ۔ آغاز کے بغیر تکمیل ناممکن ہے اور ابتدا کے بغیر انجام۔ لہٰذا آج ہی اس نقطے سے آغاز کردیں۔

تازہ ترین