• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین اور سماج دونوں ہی اِسے اچھا نہیں سمجھتے کہ دولھا، دلہن عدالت جائیں اور جج سے کہیں کہ ’’می لارڈ! ہم دونوں بالغ ہیں اور اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا اجازت دیجیے کہ ہم اپنے مذہبی طریقے سے ایک ڈور میں بندھ جائیں، ایک ڈور میں خود کو باندھ لیں۔‘‘ اور عدالت کہے کہ ’’ہاں! آپ ایسا کرسکتے ہیں، کیوں کہ قانون آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے۔‘‘قانون کی زبان محمّد علی جناح کے لیےحرفِ آخر تھی۔ وہ معاشرے کی نگاہوں کو پہلے بھی کبھی خاطر میں نہیں لائے تھے۔

اپنی پہلی بیوی اور اپنی سُسرال کو بھی انھوں نے اسی طرح بےجارسومات و روایات سےآزادی دلوائی تھی۔ بعد کی زندگی میں بھی وہ ایسا ہی کرتے رہے تھے۔ مثلاً جب اُن کی ہم شیرہ کا رشتہ ایک ایسے گھرانے میں ہونے جارہا تھا، جو ان کے والد کے نزدیک اِس لیے درست نہیں تھا کہ لڑکا اور اُس کے گھر والے براہ راست اُن کے فرقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور جناح پونجا کو اندیشہ ہوا کہ اگر انھوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس گھرانے میں کیا تو اسماعیلی خوجہ فرقہ اور اس فرقے کے ماننے والے اُنھیں اور اُن کے خاندان کو اپنےفرقے سےنکال باہر کریں گے، جس کے وہ متحمّل نہیں ہو سکتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے پسند آجانے کے باوجود رشتے سے انکار کردیا تھا۔ محمّد علی جناح کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنی طبیعت کے مطابق سب سے پہلے تفتیش کی کہ لڑکا کیسا ہے، اُس کا چال چلن، صحت، تعلیم اور ملازمت وغیرہ ٹھیک ہے، اور جب مطمئن ہوگئے، تو براہ راست لیکن عجیب طریقے سے اس مسئلے کو حل کر دیا۔ وہ اسماعیلی خوجہ فرقے کے سربراہ جناب آغا خان سے ملے، جو اُن سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور انھیں پورا قصہ سُنا کر اپنے والد کا اندیشہ بیان کیا۔ آغا خان نے اُنھیں یقین دلایا کہ آپ کے والد جیسا سوچ رہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہوگا، لہٰذا وہ، یہ رشتہ قبول کرلیں۔ 

تو یوں محمّد علی جناح نے اپنے والد کو مطمئن کردیا اور یہ شادی بخیر و خوبی انجام پا گئی۔ مسئلے کو قانون اور معاشرت کے دائرے ہی میں رہ کر حل کرنا اُن کی فطرت اور مزاج کا حصّہ تھا۔ اپنی اس شادی کا مسئلہ بھی انھوں نے اسی طرح حل کرنا چاہا۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلےخوش سلیقگی کا راستہ بھی اپنایا۔ یہ جانتے ہوئے کہ سرڈنشا پٹیٹ اس رشتے پہ کبھی راضی نہ ہوں گے، پھر بھی انھوں نے اپنے ہونے والے سُسر کو یہ پیغام بھیجا۔ جس کا قصّہ اکثر کتابوں میں درج ہےکہ وہ ایک شام جناح سرڈنشا پٹیٹ کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسا کہ وہ پہلے بھی جاتے رہتے تھے، لیکن اُس شام وہ اپنے ہم درد، دوست کے پاس سوالی بن کر گئے تھے۔ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد انھوں نے سرڈنشا سے پوچھا’’سر! یہ بتایئے کہ مختلف مذاہب کے ماننےوالوں کے درمیان شادی بیاہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، آپ ایسی شادیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟‘‘سر ڈنشا مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد ویگانگت کےرشتےکو ہندوستانی سماج کےلیےضروری سمجھتے تھے، چناں چہ انھوں نے جواب میں کہاکہ ’’یہ اچھی بات ہے۔ 

رتی کے جناح (قسط نمبر …5)
خوب صورت، خوب سیرت رتن بائی

ایسی شادیاں ہندوستانی سماج کو مضبوط کریں گی اور مَیں نہیں سمجھتا، اس میں کوئی مضائقہ ہے‘‘ تب محمّد علی جناح نے کہا، ’’سر! اگر ایسی ہی بات ہے تو مَیں آپ سے اپنے لیے رتی کا رشتہ مانگنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ اس کی اجازت دیں گے… کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟‘‘ سرڈنشا کو سخت تعجب ہوا، بلکہ تعجب سے زیادہ غُصّہ آیا۔ اُنھیں جناح سے ایسی امید نہ تھی۔ عُمروں کے فرق کی وجہ سے نہیں، اِس وجہ سے کہ پارسی اپنے بچّوں کو غیر پارسیوں میں بیاہنا پسند نہیں کرتے اور غُصّہ اس لیےبھی تھا کہ اُن کے خیال میں جناح کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے تھی اور اس لیے بھی کہ اُنھیں اندازہ نہیں تھا کہ جناح اس معاملے میں منطقی ذہن سے کام لے کر اُنھیں اس طرح بے بس کردیں گے۔ اور اب اُن کی یہی بےبسی شدید غُصّے میں بدل گئی تھی۔ انھوں نے محمّد علی جناح پر اپنے گھر کے دروازے بند کردیئے۔ 

غور کیا جائے تو اس واقعے کی صحت مشکوک سی لگتی ہےکہ محمّد علی جناح دھوکا دہی سےاپنا کام نکالنے کے ہمیشہ خلاف رہے۔ اس واقعے میں وہ ایک چالاک، ایک شاطر وکیل کے طور پر سامنے آتے ہیں، تو کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتےتھے کہ انجام کار کیا ہوگا؟ سرڈنشا پٹیٹ جب بےبس ہو جائیں گے تو ردّعمل میں اُن کی توہین و تذلیل نہیں کریں گے؟ جب کہ محمّد علی جناح نے وہ راستہ کبھی اپنایا ہی نہیں تھا، جس میں ذلّت و بےعزّتی کا ذرا سا بھی اندیشہ ہو۔ اس کے مقابلے میں جو دوسرا واقعہ کتابوں میں آیا ہے وہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مطابق رتی نےمحمّد علی جناح کے مشورے سے اپنی خواہش کا تذکرہ اپنے والدین سے کیا اور وہی ہوا جس کادونوں کو اندیشہ جناح تھا۔ والدین نے انکار کردیا۔ مگر…محبّت انکار کو کہاں مانتی اور قبول کرتی ہے، تو محبت نےاپنا فیصلہ سنا دیا۔ 

سرڈنشا کو تشویش ہوئی کہ چہیتی بیٹی کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے، وہ عدالت گئے اور وہاں سے حُکمِ امتناعی لے آئے کہ رتی ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی تھیں، لہٰذا قانون نے اُن کاراستہ روک دیا۔ حکم امتناعی سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ رتی نے شادی کر لینے کی دھمکی دی ہوگی۔ اور محمّد علی جناح کو جب معلوم ہوا ہوگا تو انھوں نے رتی کو یہی سمجھایا ہوگا کہ ’’والدین ٹھیک کہتے ہیں، قانون ابھی تمھیں یہ قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ہم دونوں کے حق میں یہی بہتر ہےکہ انتظار کریں۔ انتظاربھی بس ڈیڑھ دوسال کا جس کے بعد قانون کے مطابق ہم اپنی زندگی کا فیصلہ کرنےمیں آزاد ہوں گے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اُس وقت تک تمھارے والدین تمھاری مرضی کےآگے سر جُھکادیں۔‘‘ رتی کو قائل کرنا جناح کےلیےکیا مشکل تھا۔ مشکل تو بس یہی تھی کہ ڈیڑھ دو سال تک وہ آپس میں نہ مل سکیں گے۔

محمّد علی جناح نےڈنشاپٹیٹ کا جواب سُن کر پسند ہی نہ کیا کہ وہ اب اُن کے گھر جائیں۔ ہاں، عقل اور جناح کی شخصیت کا تجزیہ، دونوں یہی گواہی دیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اصل میں بڑے لوگوں کی زندگی کے گرد افسانوی داستانوں کا تانا بانا بُن دیا جاتا ہے۔ ایسا محض عقیدت میں ہوتا ہے اور چوں کہ عقیدت بھی عقل سے نہیں،جذبات سے جُڑی ہوتی ہےتو سُننے اور پڑھنے والے ایسی کہانیوں پر یقین کرلیتے ہیں۔ محمّد علی جناح کی زندگی کے واقعات میں ایسی کہانیوں،افسانوں کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن غور کیاجائےتو ایسے افسانے گھڑنے والے اپنے ہیرو کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ وہ اپنے ہیرو کا رشتہ حقیقت سے توڑ دیتے ہیں۔ اور حقیقت جب مسخ ہو جائے،محض داستان بن جائے تو ہیرو کی پرستش تو آسان ہو جاتی ہے، اس کے نقوشِ قدم پرچلنا دشوار بلکہ ناممکن ہو جاتاہے۔ 

دراصل ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم نے اپنے ہیرو کی عظمت کو داغ دھبّوں سے محفوظ کردیا۔ اب ہم آسانی سے اُس کی پرستش کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ جب ہم کسی شخصیت کو عظمت و عقیدت کی بلندی، سنگھاسن پر بٹھا دیں تو پھر وہ انسان اور انسانیت کے منصب سے کہیں آگےنکل کردیوتا، اوتار کا درجہ حاصل کر لیتی ہے، اور پھر اُس کے لیےہمیں قربانی کے ایک بکرے کی تلاش ہوتی ہے، جس کی بھینٹ دے کر ہم ان سوالوں سے نجات حاصل کریں، جو تاریخ ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔ حالاں کہ وہ حقائق جن پہ ہم پردہ ڈال کر مطمئن ہوجاتے ہیں، درپردہ قومی نفسیات پر بہت خاموشی سے اپنا اثر ڈالتے رہتے ہیں۔

عقل و شعور کے فیصلے

محمّد علی جناح نے فیصلہ تو کرلیا کہ وہ رتی سے نہیں ملیں گے اور رتی بھی آمادہ ہوگئیں، لیکن یہ مشکل فیصلہ تھا۔ کسی بھی طوفانی، سیلابی محبّت میں ایسی معقولیت اور سمجھ داری بھلا کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ محبّت نہیں تھی، محبّت کو پابند کرنا تھا، اصول اور اخلاق کی ڈور سےباندھنا تھا اور ایسا صرف محمّد علی جناح ہی کر سکتے تھے۔ اس کےلیےاُنھیں اپنےجذبات کو صرف عقل اور عقل کے فیصلوں کے تابع کرنا تھا اور انھوں نے باآسانی ایسا کرلیا، لیکن سوال تو یہ تھا کہ اب وہ اپنی تنہا، اُداس شامیں کہاں گزاریں۔ دن بھر عدالتوں کی خُشک اور لاحاصل بحثوں سے وہ تھک جاتے تھے۔ ’’می لارڈ، می لارڈ‘‘ کہتے کہتے گلا سوکھ جاتا تھا۔ 

واپس اپنی رہائش گاہ پر آتے تو کچھ اور کرنے کو جی نہ چاہتا۔ پہلےجب مشرق سے اُبھرنے والا سورج مغرب کی سمت ڈوبنےکےلیےجُھک جاتا، اور آسمان پرشفق کی صُورت تاحدِنظر اُس کی سُرخی پھیل جاتی، تو محمّد علی جناح سرڈنشا کی قیام گاہ جانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے، کبھی سرڈنشا اور کبھی رتی سے ملنے کے لیے۔ وہ جانتے تھے کہ رتی عُمر میں اُن سے بہت چھوٹی ہیں، لیکن گفتگو، بات چیت سے اُن کی عُمر ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ 

وہ اُن سے کیٹس، شیلے اور بائرن کی بابت باتیں کرتیں۔ شیکسپیئر کا تذکرہ بھی آجاتا اور محمّد علی جناح کے لیے یہ بہت تھا۔ ساحلی شہر بمبئی میں کوئی ایک گھر بھی ایسا نہ تھا، جہاں اُنھیں یہ ماحول میسّر آتا، ایسی کوئی شخصیت ملتی، جو اُن سے انگریزی ادب، کلچر اور معاشرت پر ایسی سحر انگیز گفتگو کرتی۔ دراصل رتی صرف معصوم، کومل احساسات و جذبات ہی نہیں رکھتی تھیں۔ بلکہ اُن کا سیاسی شعور بھی بہت پختہ تھا۔ اپنے والد اور والدہ کےساتھ سیاسی اجلاسوں میں شرکت کیا کرتیں اور اکثر پہلی صف میں بیٹھتی تھیں۔

محب وطن، کٹّر ہندوستانی رتی

بعد کے واقعات میں بھی ظاہر ہوا کہ وہ محمّد علی جناح ہی کی طرح کٹّر ہندوستانی تھیں۔ انھوں نے بمبئی کے انگریز گورنر کی رُخصتی کی تقریب کے معاملے میں، جو گورنر صاحب ہی کی مرضی سےمنعقد ہورہی تھی، مگرمحمّد علی جناح اس کےخلاف تھے،جناح کابھرپور ساتھ دیا۔ دراصل جناح کا کہنا تھا کہ گورنر صاحب نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا کہ اُن کے اعزاز میں ایسی شان دار الوداعی تقریب منعقد کی جائے۔ اُنھیں اُس انگریز گورنر، لارڈ ولنگٹن سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں تھی، مگر وہ ایک سچّے اور حُبّ وطن رکھنے والے ہندوستانی تھے، جو یہ سمجھتے تھے کہ انگریز آقائوں کو بتا دینا چاہیے کہ وہ اور اُن کی طرح ہزاروں ہندوستانی جو بمبئی میں رہتے بستے ہیں، اُن کی حکمرانی اور پالیسیوں سےکسی بھی طرح خوش، راضی نہیں ہیں۔ 

چناںچہ گورنر لارڈ ولنگٹن کی خواہش پر جب ٹائون ہال میں الوداعی تقریب رکھی گئی تو جناح کی غیرت، غُصّے میں تبدیل ہوگئی۔ انھوں نے رتی کو بتایا کہ یہ سب ہو رہا ہے اور مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تقریب نہیں ہونی چاہیے اور اس تقریب کو ہونے سے روکنے کےلیےجو کچھ بھی کرناپڑے، ہمیں کرنا چاہیے۔ رتی تو پہلے ہی یورپی راج سے خوش نہیں تھیں۔ ایک دن انھوں نے ایک بوڑھی مظلوم ہندوستانی عورت کو ایک بدمعاش انگریز پولیس افسر سے بچایا بھی تھا کہ جب پھل فروش عورت کے ہاتھوں سے اُس کے پھلوں کا ٹوکرا گر گیا تھا، وہ سڑک پر اپنے پھل چُننے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی تھی اور انگریز افسر اُس عورت پر گرج برس رہا تھا کہ ’’جلدی کر، یہ پھل اُٹھا اور اپنا رستہ لے‘‘ تو رتی وہاں سے گزرتے گزرتے رُک گئیں۔

انھوں نے غضب ناک ہو کر انگریز پولیس افسر کو گُھورا، زبردست جھاڑ پلائی اور پھر حُکم دینے والے انداز میں کہا کہ ’’مُنہ کیا دیکھتا ہے، پھل اکٹھے کرنے میں اِس بوڑھی عورت کی مدد کر‘‘۔ پولیس افسر کو رتی کی یہ بات حددرجہ گراں گزری ہوگی، لیکن خوش جمال ہندوستانی لیڈی کے لہجے میں جانے ایسا کیا تھا کہ وہ جُھک گیا اور جلدی جلدی پھل اٹھانے میں بوڑھی عورت کی مدد کرنے لگا۔ انگریز سوانح نگاروں نے بھی اس واقعے کو رقم کیا ہے اور داد دینے کے انداز میں لکھا ہےکہ رتی حُبّ وطن کے معاملے میں ایسی ہی تھیں۔ تو جب محمّد علی جناح نے اُنھیں اپنے فیصلے سے(گورنر کی الوداعی تقریب روکنے کےحوالےسے)مطلع کیا تو رتی نے ان سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’’مَیں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔‘‘ جناح دُوراندیش تھے، جانتے تھے کہ حکومت کے حُکم پر ہونے والا یہ جلسہ آسانی سےمنسوخ نہیں ہوگا، کچھ نہ کچھ ہنگامہ، دھینگا مشتی تو ضرور ہوگی اور ایسے موقعے پر اُن کی نازک، خُوب صُورت بیوی اس ہنگامے کی لپیٹ میں آسکتی ہے، لیکن ساتھ ہی اُنھیں اطمینان بھی تھا کہ آزادی کی اس جنگ میں اُن کی شریکِ حیات بھی اُن کے ساتھ ساتھ ہیں۔ 

اُنھوں نے چاہا تو یہی کہ رتیّ اس ہڑبونگ کاحصّہ نہ بنیں لیکن اُنھوں نے رتیّ کو روکا نہیں۔ وہ انسانی آزادی کے عَلم بردار تھے اور عورتوں کا تو اُن کے دل میں ویسے ہی بہت احترام تھا۔ وہ ہندوستان میں عورتوں کو خاصی ابتر، مظلوم حالت میں پاتے تھے۔ اِسی لیے انھوں نے اپنی بہن فاطمہ کو باوجود ہزار اعتراضات کے دنداں سازی سکھانے کے ادارے میں داخل کروایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ خواتین بھی تعلیم حاصل کریں اور اپنے مستقبل کی تعمیر میں مَردوں کی محتاج نہ ہوں۔ جب وہ ہر عورت کو آزاد، خودمختار دیکھنا چاہتے تھے، تو رتی کو کسی ہنگامہ پرور تقریب میں جانے سے کیسے روک دیتے۔ اگلی صبح محمّد علی جناح اور رتی بگھی میں بیٹھ کے ٹائون ہال پہنچے۔ صبح کا ملگجا اندھیرا پُرنور سحرمیں تبدیل ہو چُکا تھا۔ ٹائون ہال کےباہر پروگرام کے مطابق ہندوستانیوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ جناح اوررتی کو دیکھ کرانھوں نے پُرجوش استقبال کیا۔ رتی اُن لوگوں کےساتھ باہرٹھہرگئیں۔ 

جناح ہال کے اندر چلے گئے، اُن کے ساتھی، جو اُن کے منتظر تھے، وہ بھی ہم راہ گئے۔ وہ لوگ رات بھر ٹائون ہال کے باہر جمع رہے تھے اور اب ہال کُھلتے ہی اُنھوں نے اگلی نشستوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جلسہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ جلسے کے لیے بمبئی کے شیرف کا انتظار تھا۔ شیرف صاحب آئے تو جناح کے حامیوں نے نعرے بازی شروع کر دی، حکومت کے حامی اور ٹوڈی ارکان بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے جب یہ شور ہنگامہ دیکھا تو وہ اُبل پڑے اور لگےگالی گفتار کرنے۔ 

جناح ہمیشہ قانون کے پابند رہے تھےاور انھوں نے نوجوانوں کو ہمیشہ نظم و ضبط ہی کی تلقین کی تھی، لیکن جب سارے دروازے بند کردیےجائیں اوربات سمجھانے اور منوانے کا کوئی جمہوری راستہ باقی ہی نہ رہے، تو پھر کیا رہ جاتا ہے۔ تو اُس دن یہ سارا ہنگامہ شام پانچ بجے تک چلتا رہا، اِسی میں کوئی قرار داد بھی پیش ہوئی، جس میں لارڈ ولنگٹن کی تعریف و توصیف کی گئی ہوگی۔ ’’کی گئی ہوگی‘‘ اِس لیے کہ قرار داد کا مضمون کسی نےسُناہی نہیں۔ 

وہاں تو ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے تو کب اور کون سی قرارداد پیش ہوئی، کس طرح منظور ہوئی، اِس کا احوال بھی حکومت کے کارندوں بلکہ غنڈوں سے پوشیدہ نہ تھا۔ بعد میں حکومت نے اعلامیہ جاری کردیا کہ قرارداد منظور ہوئی، جس میں لارڈ ولنگٹن کو اُس کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین