• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے“ وہ دن افق سے لگا کھڑا ہے۔ سو اب ”آفتاب آمد دلیلِ آفتاب“ کے تحت 12مئی کی صبح خوش جمال کا انتظار کرنا چاہئے جب سب آشکار ہو جائے گا۔
لیکن ایک بات انتخابات سے کئی گھنٹے قبل نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ میڈیا کی بے نظیر تڑپ پھڑک، پی ٹی آئی کے ہمنوا قلم کاروں کے بے مثل فن پاروں، پُراسرار ذرائع سے آنے والے اربوں روپے کی ریل پیل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بننے والے ہزاروں حشرساماں اشتہارات، خواب فروشوں کی پرواز تخیل اور تبدیلی کے خوش نما نعروں کے باوجود ”صاف چلی شفاف چلی“ کا سونامی نہیں آ رہا اور اس کی حکومت قائم نہیں ہو رہی۔ وہ صرف اتنے ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی میں جاسکے گی کہ متحرک اور فعال حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکے۔ اس کے علاوہ اس کے سامنے دو آپشنز ہوں گے۔ پہلا یہ کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت میں شریک ہو جائے اور دوسرا یہ کہ وہ عالی مرتبت آصف علی زرداری کی پانچویں حکومت کا حصہ بن جائیں۔ کچھ دوستوں کے خیال میں آتش بداماں تحریک انصاف کے سامنے ایک تیسرا آپشن بھی ہے وہ یہ کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگئی، عوام کا مینڈیٹ لوٹ لیا گیا اور ہم ان نتائج کو نہیں مانتے۔ دیکھئے12مئی کی صبح ”صاف چلی شفاف چلی“ کس صاف ستھرے راستے کا انتخاب کرتی ہے۔
گزشتہ شب ایک ٹی وی ٹاک شو میں تحریک انصاف کی مرکزی خاتون رہنما نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی پنجاب سے132 نشستیں جیت رہی ہے اور وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی۔ میز بان نے مجھ سے تبصرہ چاہا تو میں نے فقط ایک جملہ کہا ”خواب و خیال پر کوئی پابندی نہیں“۔ اس طرح کے تخیلاتی خواب گاہوں میں رہنے والوں کے لئے 12 مئی کا دن بڑی مایوسی کا دن ہوگا۔ خان صاحب کھلاڑی رہے ہیں اور اچھے کھلاڑی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ تاویلیں تراشنے اور جواز تلاشنے کے بجائے خندہ پیشانی سے اپنی ہار مان لیتا اور جیتنے والے کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اسے اصطلاح میں Sportsmanship کہتے ہیں یعنی اچھے کھلاڑی کی وہ عالی حوصلگی جو اسے ہار کے دکھ سے بلند لے جاتی اور فاتح کی کامرانی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اچھا کھلاڑی شائستگی کا اعلیٰ نمونہ بھی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے خان صاحب نے پوری انتخابی مہم کے دوران اس اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کھیل کی اصطلاح میں وہ مسلسل ”فاؤل“ کرتے رہے۔ مسلسل نوبال پھینکتے اور بال ٹیمپرنگ کرتے رہے۔ انہوں نے انتخابی مہم میں شامل تمام سیاسی قائدین میں پہلے سب سے زیادہ ناتراشیدہ زبان استعمال کی۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو صاف چلی شفاف چلی کی ہر سطح تک سرائیت کرگیا ہے۔ پی ٹی آئی کے شان میں ذرا سی گستاخی کرنے والوں کو جس طرح کی صلواتیں سنائی جاتی ہیں، اس کا تذکرہ بھی محال ہے۔ ایسے میں مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ ساتویں آسمان پر پرواز کرتی ”صاف چلی شفاف چلی“ جب زمین پہ آگرے گی تو اس پہ کیا گزرے گی؟
زمین پہ آگرنے کی بات سے مجھے برادرم عطاء الحق قاسمی کا کالم یاد آگیا۔ قاسمی صاحب نے عمران خان کے حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ووٹ کوئی خیرات نہیں ہوتے کہ ہمدردی کرتے ہوئے کسی کی جھولی میں ڈال دیئے جائیں۔ ووٹ قومی امانت ہوتی ہے جس کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے“۔ میرا ایک دوست کل بھری محفل میں کہہ رہا تھا کہ ”شکر ہے عمران خان بچ گیا، اسے کوئی شدید چوٹ بھی نہیں آئی۔ ہم سب اس کی صحت و سلامتی کیلئے دعا گو ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خان صاحب اگر چودہ فٹ کی بلندی سے گر گئے ہیں تو ان سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو چودہ ہزار فٹ گہری کھائی میں پھینک دیا جائے“۔
خان صاحب نے اسپتال کے بستر علالت سے ایک رقت آمیز پیغام جاری کیا ہے۔ پیغام کو زیادہ دلگیر اور جذبات انگیز بنانے والے اشتہاری فن کار نے اس میں بڑے اچھوتے رنگ بھرے ہیں۔ پس منظر میں اداس موسیقی ڈالتے ہوئے دل سوز آواز میں ”انشاء اللہ“ کا ورد بھی بھر دیا گیا ہے۔ بڑی ہنرمندی سے دل کی دھڑکنوں کی آواز بھی سمو دی گئی ہے۔ یہ اشتہار تسلسل کے ساتھ چلایا جا رہا ہے اور انتہائی سنجیدہ مسائل میں گھرے پاکستان کو سستی جذباتیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ذاتی طور پر میرا خیال تھا کہ خان جیسا کھلاڑی رحم کے جذبات ابھارنے سے گریز کرے گا۔ بہرحال اقتدار کی کشمکش میں کوئی حربہ بھی ناجائز نہیں۔
میں برادرم عطاء الحق قاسمی کی دلیل سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے کہوں گا کہ انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ ناگزیر ہے۔ لیکن اس ہمدردی کا رخ پی پی پی کی طرف نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ”شہیدوں“ کی جماعت ہے۔ اس کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اس نے مشرف عہد میں مظالم سہے، جلاوطنی کاٹی، شریف برادران اپنے باپ کی میت کو کندھا بھی نہیں دے سکے یا میاں صاحب کو ہتھکڑیاں لگا کر جہاز کی سیٹ سے باندھ دیا گیا۔ ہمدردی کا یہ ووٹ خان صاحب کو بھی نہیں ملنا چاہئے کہ وہ چودہ فٹ بلند لفٹر سے گر پڑے اور انہیں چوٹیں آئیں۔ ہمدردی کا یہ ووٹ قائد اعظم کے پاکستان کو ملنا چاہئے کہ وہ نہ جانے کتنے ہزار گز کی بلندی سے غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، گیس کی نایابی، دہشت گردی، قتل و غارت گری، معیشت کی بربادی، پندرہ ہزار ارب روپے کے قرضوں اور لاتعداد دیگر مسائل کی سنگلاخ گھاٹیوں میں آن گرا ہے، جس کی آنکھیں بے نور ہوچکی ہیں، جس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہل چکے ہیں جو غیر ملکی امداد کی بیساکھیوں کے بغیر کھڑا نہیں ہوسکتا، جس کا سارا بدن زخم زخم ہے جس کے انگ انگ سے لہو رس رہا ہے اور جس کی بے بسی یہ ہے کہ کسی اشتہاری کمپنی کے ذریعے اپنی اس شخصیت کو اشتہار کی شکل بھی نہیں دے سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ قوم صرف اور صرف پاکستان سے ہمدردی کا عزم لے کر گھروں سے نکلے اور اللہ کو حاضر و ناظر جان کر وقت کی عدالت میں سچ کی گواہی دے۔
پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اخلاقیات سے گری ہوئی انتہائی عامیانہ مہم چلائی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان ملی بھگت کا بے بنیاد پروپیگنڈا دم توڑ گیا۔ یہ بات بھی کھل گئی کہ پی پی پی کس طرح صاف چلی شفاف چلی کو سیراب کررہی ہے۔ اربوں روپے کی اشتہاری مہم میں پی پی پی نے خان صاحب کو نشانہ نہ بنایا۔ دوسری طرف خان صاحب کے جارحانہ حملوں کا رخ بھی صرف اوئے نواز شریف کی طرف رہا۔ لفٹر سے گرنے کے بعد ان کی عیادت کے لئے فوری طور پر آنے والوں میں رحمن ملک سب سے نمایاں تھے۔ اخباری اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔ شہباز شریف پہنچے تو ان کے خلاف بہت قسم کے نعرے لگائے گئے۔ انہیں خان صاحب سے ملنے بھی نہیں دیا گیا، خان صاحب کو اطلاع کی گئی تو انہوں نے بھی انکار کردیا۔ کسی نے اسلامی اور مشرقی اقدار پر مبنی اس طرز عمل کی داد نہ دی جس کا مظاہرہ نواز شریف نے کیا۔
پیپلز پارٹی خاصی پُرامید ہے۔ اس کے پالیسی ساز ڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ان کی پانچویں حکومت کا راستہ تراش چکے ہیں۔ کیا اس کی یہ خوش گمانی درست ہے؟ اب تو صرف چند گھنٹے باقی ہیں۔ ”صاف چلی شفاف چلی“ تو اقتدار کی دوڑ سے باہر ہوچکی، کیا وہ زرداری صاحب کی کشتِ ویراں کو شاداب کرسکے گی؟
تازہ ترین