• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک دلچسپ تجزیہ ہے کہ 11مئی 2013 کے انتخابات کے لئے سیاسی پارٹیوں نے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں ان میں تقریباً 70 فیصد وہی مانوس، دیرینہ اور پرانے چہرے ہیں یا ان کی اگلی نسل ہے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق سیاسی خاندانوں، وڈیروں، زمینداروں اور دولت مند کلاسز سے ہے۔ نئے چہروں میں اکثریت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہے اور ان نوجوانوں میں بھی ایک تعداد انہی روایتی سیاسی گھرانوں سے ہے۔ میں گزشتہ دنوں کچھ دیہاتی حلقوں کا سروے کر رہا تھا تو احساس ہوا کہ اگرچہ ہم تبدیلی اور نئے چہروں کا شور مچاتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس شور کی حمایت نہیں کرتے۔ تحریک انصاف نے بہت سے حلقوں میں نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے جو اپنے اپنے علاقوں میں غیرمانوس ہیں۔ ٹکٹ ملنے سے پہلے انہیں نہ کوئی جانتا تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنے علاقوں میں سیاسی کارکن کی حیثیت سے یا خدمت ِ خلق کے حوالے سے کوئی کام کیا تھا چنانچہ ان نئے چہروں کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) یا پی پی پی کے روایتی امیدواروں کو اس لئے سبقت حاصل ہے کہ وہ پرانے ڈیرے دار، دکھ سکھ میں شریک ہونے والے اور تھانے کچہری جانے والے لوگ ہیں۔ 1970 میں پی پی پی کے حق میں ایک لہر چلی تھی جس نے کھمبوں کو منتخب کروا دیا تھا۔ اس بار اس لہر کے آثار شہری حلقوں میں تو محسوس ہوتے ہیں لیکن دیہاتی حلقوں میں نظر نہیں آتے کیونکہ یہ سیاسی لہر اتنے بڑے پیمانے پر نہیں چلی جس کا مظاہرہ ہم نے 1970میں دیکھا تھا۔ اس پس منظر میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ لگتا ہے اکثر روایتی سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں رونق افروز ہو جائیں گے اور وہی کریں گے جو اس سے قبل کیا کرتے تھے۔
دنیا بھر میں اور خاص طور پر ترقی پذیر معاشروں میں جمہوریت اور سیاست دولت مندوں کا مشغلہ ہوتا ہے جن کے پاس وسائل بھی وافر ہوں اور وقت بھی بہت ہو وہ دولت کے ساتھ سیاسی اثر و رسوخ کی آرزو کے اسیر ہوتے ہیں چنانچہ سیاست ان کے لئے مشغلہ بھی ہوتی ہے اور ذریعہ عزت بھی… ان کی بڑی تعداد سیاست کو کاروبار سمجھتی ہے اور سیاست کی کان سے خوب دولت کماتی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سیاسی حضرات ککھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے ہیں۔اس سیاسی کلچر میں عام طورپر کارکنوں کو سیاسی بام پر ابھرنے اور اسمبلیوں میں پہنچنے کے مواقع نہیں ملتے کیونکہ جمہوریت بہرحال دولت کا کھیل ہے اور وسائل کی مرہون منت ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں پارٹیوں پر خاندانی اجارہ داری کے سبب عام کارکنوں کے لئے اسمبلیوں کے خواب دیکھنا ویسے بھی محض ایک خواب ہی ہے۔ البتہ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں عام کارکن اپنی محنت، لگن اور خدمت سے قیادت کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ تعلیم یافتہ اور سیاسی حوالے سے بالغ و پختہ معاشروں میں پارٹیاں اپنی تاریخ، پروگرام اور کارکردگی کے سبب پہچانی جاتی ہیں نہ کہ صرف پارٹی قائد کے کرشمے کی وجہ سے…
ہم اگر اپنے سیاسی ورثے پر نگاہ ڈالیں تو ہمارا جمہوری عمل ماضی کی توسیع لگتا ہے۔ ہماری پہلی قانون ساز اسمبلی کے اراکین تعلیمی، سیاسی اور ذاتی کردار کے حوالے سے بعد میں آنے والی اسمبلیوں سے بہت بہتر تھے حالانکہ اس وقت شرح خواندگی تیرہ فیصد تھی اور آج پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ہماری پہلی قانون ساز اسمبلی 1945-46 کے انتخابات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی۔ جائیداد اور تعلیم کی پابندی کے سبب صرف چودہ فیصد مسلمانوں کو حق رائے دہی حاصل تھا۔ قائداعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ ایک جمہوری پارٹی کی مانند کام کرتی تھی جس میں خاندانی حاکمیت کا تصور موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ کی پارلیمینٹ اس کی کونسل تھی جس کے اراکین ملک بھر سے منتخب ہوتے تھے، نامزد نہیں۔ انہیں مسلم لیگ کے بنیادی اراکین منتخب کرتے تھے۔ مسلم لیگ کونسل 503اراکین پر مشتمل تھی جس میں 163 زمیندار، جاگیردار اور وڈیرے تھے اور 145 کا تعلق وکالت کے شعبے سے تھا۔ وڈیروں میں پنجاب 51اور سندھ 15 کی نمائندگی مقابلتاً زیادہ تھی چنانچہ 1945-46 کے انتخابات کے نتیجے کے طور پر جو مرکزی قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور بعد ازاں اگست 1947 کے بعد پاکستان کی دستورساز اور وفاقی قانون ساز اسمبلی کہلائی اس کے اراکین کی تعداد 69تھی۔ ان میں سے مجھے 48اراکین کے کوا ئف مل سکے۔ ان میں نصف اراکین کا تعلق دولت مند اور زمیندار گھرانوں سے تھا۔ 45اراکین گریجوایٹ تھے ، 28 اراکین وکیل تھے۔ دو ڈاکٹر، ایک انجینئر اور چھ سابق پروفیسرتھے۔ پروفیسروں میں سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین وزیر بھی بنے اور وائس چانسلر بھی رہے۔ ان میں چند ایک ٹیکنوکریٹ اور ماہرین معاشیات بھی تھے۔ ان کی بہت بڑی اکثریت مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اور پاکستان کے نعرے پر منتخب ہوئی تھی اور اکثر مقامات پر مسلم لیگ کے مخالفین ذاتی اثر و رسوخ، دولت اور جاگیروں کے باوجود شکست کھا گئے تھے۔
مطلب یہ کہ زمیندار اور جاگیردار ہمارے روایتی سیاستدان ہیں اور وہ گزشتہ دو صدیوں سے سیاست کے میدان میں نمایاں ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو گھرانے ہیں جو ہر پارٹی اور ہر اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے جسے صرف جمہوری عمل کے تسلسل سے ہی بدلا جاسکتا ہے۔ ہندوستان نے ا ٓزادی کے فوراً بعد زرعی اصلاحات کرکے جمہوریت کے لئے راہ ہموار کرلی تھی لیکن ہمارے ملک میں بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور روایتی سیاسی خاندانوں نے اس کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اب بھی ان روایتی سیاسی گھرانوں کی اکثریت مسلم لیگ (ن) میں ہے۔ اگرچہ یہ خاندان پی پی پی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ف ،ق میں بھی ہیں انہی کی بہت بڑی اکثریت کل تک پرویز مشرف کے ساتھ تھی۔ اس سے پہلے جنرل ضیا الحق اور جنرل ایوب خان کی ریڑھ کی ہڈی تھی اور ان سے قبل انگریز حکومت کی چھڑی تھی۔ کل کلاں حالات بدلیں تو وہ بھی اپنا سیاسی قبلہ بدل لیں گے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے لیڈروں کے اصول کی سیاست کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اورمفادات کی سیاست ہرشے پر غالب آجاتی ہے۔ جب 2008 میں اصول کی سیاست کا نعرہ بلند ہوا تھا تو میں نے کئی بار عرض کیا تھا کہ اصول نامی شے کا ہماری سیاست میں رواج مشکل ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائے اور آمر وں کاساتھ دینے والے سیاستدانوں پر دروازے بند کردیئے جائیں تو جمہوری تالاب بہت سی گندی مچھلیوں سے پاک ہو جائے گا۔ اصول کی سیاست کا کیا حشر ہوا؟ کیا اس پرتبصرہ کرنے کی ضرورت ہے؟
صدارتی جمہوریت کی ماں امریکہ ہو یا پارلیمانی جمہوریت کی ماں انگلستان ہو ہر معاشرے میں کچھ دولت مند خاندانوں کو روایتی سیاسی گھرانوں کی حیثیت حاصل ہے اور وہ ہر صورت منتخب اداروں میں پہنچ جاتے ہیں کیونکہ جمہوریت دولت کا کھیل اور دولت مندوں کا مشغلہ ہے۔ پاکستان اور ترقی یافتہ جمہوریتو ں میں فرق یہ ہے کہ وہاں سیاسی جماعتیں نہایت منظم، مضبوط اور جمہوری مزاج رکھتی ہیں اس لئے کچھ عام کارکن اور بے وسیلہ حضرات اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر پارٹیوں کی اعلیٰ پوزیشنوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ پارٹیاں ان کا مسلسل احتساب کرتی ہیں اور وہ پارٹی ڈسپلن کے پابند رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پارٹیوں پر چند گھرانوں اور چہروں کی اجارہ داری ہے جس نے خوشامد، دربار داری اور سیاسی رشوت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ فیوڈل کلچر کاشاخسانہ ہے چنانچہ پارٹی وفاداری کاعنصر کمزور ہو گیاہے۔ پاکستان میں بہت سے انتخابات ہوئے ہیں جن سے سیاسی تربیت کی توقع کی جاتی ہے۔ میڈیا آزاد اور بااثر ہے جس سے بیداری پھیلی ہے۔ اس کے باوجود اگر رائے دہندگان لوٹا کریسی، کرپشن اور مفادات کی سیاست کا ساتھ دیں اور ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیں تو پھر آپ ہی بتایئے کہ کیاکیا جائے اور ملک کا سیاسی کلچر کیسے بدلے؟ الیکشن کمیشن، عدالتوں اورپارٹی نامزدگیوں کے فلٹر ناکام ہوچکے، اب عوام کا فلٹر کیا فیصلہ کرتا ہے یہ آپ گیار ہ مئی کو دیکھ لیں گے…!!
تازہ ترین