• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترقی یافتہ ملکوں میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، جنہیں عوام باری باری اقتدار میں لاتے ہیں، وہاں یہ امر جمہوریت کے استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے ”باری لینا“ قرار دے کر ”مینے“ مارے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب کسی اور کو بھی ”باری“ لینے دیں، حالانکہ کرکٹ کے کھیل میں بھی دو ہی ٹیمیں ہوتی ہیں جو باری باری کھیلتی ہیں، اس ”باری“ میں حصہ لینے والے کھلاڑی عمر بھر کے تجربے کے بعد اس ٹیم کا حصہ بنتے ہیں جس نے متحارب ٹیم کے مدمقابل آنا ہوتا ہے لیکن ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرے اور کوئی کارکردگی دکھائے بغیربعض لوگ یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ کرکٹ کے علاوہ سیاسی ٹیم کی ”کپتانی“ بھی انہیں ”دان“ کر دی جائے۔ وہ یہاں بھی باری لینا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ باری کسی اور نے نہیں خود عوام نے دینا ہوتی ہے لیکن عوام جب ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے ماضی میں احمقانہ سیاسی فیصلوں کے علاوہ کیا کیا ہے، آپ کی کارکردگی کیا ہے، آپ نے سیاست کے وہ دکھ جھیلے ہیں جو پھانسی سے جلاوطنی تک آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ کیا چاروں صوبوں کی قیادت اور عوام قومی زندگی کے مشکل مراحل میں آپ کے ساتھ چلتے رہے ہیں اور بحران کے حل کے لئے ان کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں تو ان سارے سوالوں کے جواب میں وہ صرف یہ کہتے ہیں، یہ لوگ باری باری انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ اس بار آپ ہمیں یہ موقع دیں دوسرے لفظوں میں مقبول سیاسی جماعتوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر جا کر بیٹھ جائیں اور اپنے عوام کو ہدایت کر دیں کہ وہ اس بار انہیں ”باری“ لینے دیں!
اس کے علاوہ ایک ایشو ”موروثی سیاست“ کا بھی ہے، جو جماعتیں عوام کے دلوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکیں، وہ اور ان کے ”بھونپو“ سارا سارا دن سیاست دانوں کے شجرے اپنے سامنے رکھے بیٹھے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا، بھتیجا، بھائی سب سیاست میں ہیں اور ان کو ٹکٹیں دی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے علاوہ یہ ”بدعت“ دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ میں ”موروثی سیاست“ کے خلاف ہوں، بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے کوئی بھی ”موروثی“ چیز اچھی نہیں لگتی۔ چنیوٹی شیخوں کا پورے کا پورا خاندان ”موروثی تجارت“ میں ”ملوث“ ہے، ان کو پیدا ہوتے ہی گڑھتی تجارتی کی دی جاتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو، چینوٹی شیخ، اپنے سارے اثاثے دوسروں کے سپرد کرنے کی روایت ڈالیں تو کتنا اچھا ہو۔ میرا خاندان ایک ہزار سال سے بغیر کسی وقفے کے ”موروثی علم“ سنبھالے بیٹھا ہے۔ یہ اجارہ داری بھی کوئی اچھی چیز نہیں۔ اب ہماری اگلی نسل کو جہالت کی طرف جانا چاہئے۔ کئی صحافیوں کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے عزیز و اقارب صحافت سے وابستہ ہیں، حالانکہ دوسروں کو بھی یہ مواقع ملنا چاہئیں۔ یہی صورتحال بیورو کریسی، فوج، میڈیسن اور دوسرے شعبوں میں موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں ”موروثیت“ ہمارے گوڈے گٹوں میں بیٹھ چکی ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ یہ مسئلہ ڈسکس کیا تو وہ بولا: ”اگر کوئی سیاستدان اپنے بیٹے، بھائی یا بھتیجے کو سیاست میں لاتا ہے تو کیا وہ اس کے ساتھ کوئی آرڈیننس بھی جاری کرتا ہے کہ عوام اسے ووٹ دینے کے پابند ہیں“؟ میں نے کہا :’نہیں“۔ جس پر وہ بولا: ”اگر ایسا نہیں اور اس سیاست دان کے عزیز و اقارب سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور سیاست کرنا چاہتے ہیں تو سیاست دان انہیں صرف نامزد کرنے کے گنہگار ہوتے ہیں۔ ان کے اس فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے تک کی تصدیق تو بہرحال عوام ہی نے کرنا ہوتی ہے“۔ میں اپنے اس دوست کی دلیل سے متاثر نہیں ہوا، میں اب بھی اپنے اس خیال پر قائم ہوں کہ سیاستدان کے بھائیوں، بیٹوں کو سیاست میں نہیں جانا چاہئے مگر مجھے علم ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ سیاست دان انہیں سامنے لاتے رہیں گے اور عوام انہیں ان کے میرٹ پر منتخب یا مسترد کرتے رہیں گے، تاہم اس کا ایک حل میرے پاس موجود ہے جس سے نہ بانس رہے گا نہ بانسری بجے گی… اور وہ حل یہ ہے کہ سیاست میں آنے والوں کے لئے خواجہ سرا ء ہونا لازمی قرار دیا جائے کہ ان کی نسل آگے چلتی ہی نہیں ہے اور یوں موروثی سیاست کا ٹنٹنا ہی ختم ہو جائے گا، تاہم واضح رہے میری اس تجویز پر جزوی طور پر پہلے ہی سے عمل ہو رہا ہے اور ان دنوں کچھ خواجہ سراء قسم کے سیاست دان ناچ گا کرعوام سے ووٹ مانگنے میں مشغول ہیں۔
باقی رہا معاملہ دو دنوں کے بعد درپیش انتخابات کا تو عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنی کمپین اپنی ماضی کی کارکردگی پر اور تحریک انصاف کی انتخابی مہم فیس بک پر چلائی جا رہی ہے، میں نے اپنی زندگی میں بہت سی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات دیکھی ہیں، اس میں ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالا جاتا ہے لیکن گالی گلوچ ہوتے کبھی نہیں دیکھی تھی، میں نے گلیوں اور بازاروں میں بازاری قسم کے لوگوں کو ایک دوسرے کو گندی گالیاں دیتے خود دیکھا ہے لیکن تحریک انصاف کی بازاری کمپین میں جو گالیاں پڑھنے کو مل رہی ہیں، وہ ہماری مغلظات کی صنف میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہیں،مغلظات سے ہٹ کر عوام سے ووٹ کی اپیل جس بنیاد پر کی جا رہی ہے، وہ کسی کارکردگی کی بناء پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ ہم باقی سیاستدانوں کو آزما چکے ہیں، اب عمران خان کو بھی آزمانا چاہئے جبکہ مسلم لیگ ن کا ایک اشتہار ٹی وی پر چلتا ہے جس کے الفاظ ہیں ”خدا کا شکر ہے کہ ہم آزمائے ہوئے لوگ ہیں“۔ اس سے قطع نظر میں خود بھی اس بات کا قائل ہوں کہ اس بار ہمیں ووٹ کسی ایسی جماعت کو دینا چاہئیں جس کی صلاحیتوں سے ہم مکمل طور پر بے خبر ہوں۔ میں جو کہتا ہوں اس پر عمل بھی کرتا ہوں چنانچہ میرا ارادہ کسی اناڑی کو صرف ووٹ دینے ہی کا نہیں بلکہ آج کسی وقت مجھے سرکلر روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک مسیحا کے پاس بھی جانا ہے جس کے متعلق اس کے متعلقین کا کہنا ہے کہ وہ آنکھوں کا آپریشن کسی تجربہ کار اور کوالیفائیڈ آئی سرجن سے کہیں بہتر کرتا ہے۔ اللہ خیر کرے، براہ کرم آپ میرے حق میں دعا کریں۔
تازہ ترین