• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
امریکی صدر بارک اوباما2011ء میں پہلی بار منتخب ہونے سے قبل نہ ہی کسی بڑے ریاستی عہدہ پر متمکن رہے اور نہ ہی کسی دوسرے حوالہ سے اپنی کارکردگی کی بنا پر ملکی سطح پرزیادہ جان پہچان رکھتے تھے۔2009-2010کے انتخابی ماحول میں بھی وہ آخری مراحل پر ہی ہلیری کلنٹن کو چیلنج کرنے کی پوزیشن پر پہنچے اور بالآخر ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار بننے میں کامیاب ہوئے۔ ان مراحل سے قبل وہ صرف مقامی اور علاقائی سطح کی لیڈر شپ دوڑ میں ایک اچھے بااعتماد مقرر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جہاں ان کے لیے ڈیمو کریٹک دوڑ جیت لینی ایک نہایت اہم کامیابی تھی، وہاں دو دفعہ صدارتی دوڑ جیت لینی ایسی کامیابیاں تھیں جن کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اوباما زیادہ امیر فرد بھی نہ تھے اور نہ ہی ان کو امیر لوگوں کی زیادت حمایت حاصل تھی۔ وجوہات واضح تھیں، ان کی ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور اسی یونیورسٹی کے اسی شعبہ میں پروفیسر شپ وہ خصوصیات تھیں جو ان کے کام آئیں اور ان کی افریقی اور مسلمان ہیریٹیج (چاہے تعلق کمزور ہی تھا) پس منظر میں رہتے ہوئے ان کے لیے رکاوٹ کی وجہ بنی رہیں، مگر مارٹن لوتھر کنگ کی مشہور تقریر ’’I Have A Dream‘‘ (میرا ایک خواب ہے) کی تعبیر سیاہ فام لوگوں کو اوباما صدارت میں حقیقت میں بدلتی نظر آرہی تھی کہ اس جنون نے کامیابی کی راہ میں تمام رکاوٹوں کو روندتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ دوبار اور اس طرح بارک اوباما آٹھ برس تک امریکی صدر رہے، ایک متوسط طبقہ کے اس فرد کے لیے اتنے بڑے منصب پہ پہنچ جانے کے بعد اپنی شخصیت، پہچان اور فیملی لائف کو اپنی اوریجنل شناخت میں قائم رکھنا جہاں مسٹر اور مسز اوباما کے لیے ایک چیلنج تھا وہاں اس آٹھ سالہ زندگی کے اثرات سے محفوظ رہنا ان کے لیے اس سے بڑا چیلنج تھا، جس سے ڈیل کرنے میں خاندان زیادہ کامیاب نہ رہا، آج کل ان کی کتاب A Promised Landدنیا بھر کے میڈیا کے زیر بحث ہے۔ اسی حوالہ سے اخبارThe Timesکے ایک حالیہ میگزین میں صدر اوباما اور فرسٹ لیڈی مشل اوباما پر ایک مضمون میں اوباما وائٹ ہائوس دنوں کی چند جھلکیاں پیش کی گئی ہیں، جہاں لوگ دونوں کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اس لیے ماحول میں کیا محسوس کررہے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ کیا آپ دونوں معاملات سے ڈیل کرنے میں پراعتماد محسوس کرتے ہیں یا نہیں، مثال کے طور پر صدر کی ایک پرانی مشیر کے سوال کے جواب میں اوباما اسے بناتے ہیں کہ وہ بالکل مختلف محسوس نہیں کرتے اور اگر وہ ان میں تبدیلی محسوس کرتی ہیں تو بتائیں لیکن وہ بتاتی ہیں کہ وہ کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتیں اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ میری اس سینئر مشیر نے مجھے یہ بتایا کہ امریکی صدارت نے میرے اندر زیادہ تبدیلیاں پیدا نہیں کیں اور میں اسے اچھا تبصرہ سمجھتا ہوں، وقت کے ساتھ بدلتے حالات میں میرے ایسے رویہ سے لوگ یہ تاثر بھی لے سکتے تھے کہ شاید میں جنگ اور بگڑتے معاشی حالات پر بھرپور توجہ نہیں دے رہا تھا، حالانکہ میں ان تمام معاملات سے بھرپور انداز میں انگیج تھا، میں جس خاموش انداز میں آگے بڑھ رہا تھا، اس پر میرے کئی دیگر دوستوں مثلاً مارٹن نسبٹ اور ایرک وٹیکر کو بھی تشویش ہوئی اور وہ میرے پاس آئے، وہ اپنی روزمرہ وائٹ لائف کے بارے میں مزید کہتے ہیں کہ وہ کئی میٹنگوں میں جانے سے کتراتے رہتے اور دن میں ایک آدھ بار کسی نہ کسی آفیشل یا سیاستدان سے ان کی سردی گرمی ہوجاتی، مگر وہ بردباری اور تحمل کے ساتھ اپنا کام جاری رکھتے، صدارت کے مشکل ترین ایام میں بھی میں نے کبھی یہ محسوس نہ کیا کہ میرے وقت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی بے مقصد گزرا ہے۔ اندرون ملک دوروں کے دوران میں خواہ کسی فیکٹری میں گیا یا طوفان کے نتیجہ میں ایک متاثر خاندان سے ملا، ہر موقع نے مجھ میں لوگوں کی مدد کرنے کے جذبےکو مزید آگے بڑھانے میں مدد دی۔ اگر میرے بس میں ہو تو صدارت سے جڑے تمام تکلفات خواہ وہ سیکورٹی ہو، میڈیا ہو یا نوکر شاہی ہو، ایک طرف رکھ دوں اور لوگوں کی براہ راست خدمت میں جت جائوں، مجھے کام سے بہت محبت ہے، اگرچہ بسااوقات کام مجھ سے محبت نہیں کرتا، روزانہ کام سے بعد کی زندگی ایک مخصوص ماحول میں گزری ہے۔ بعد دوپہر چند گنے چنے لوگوں کے ساتھ نیٹ بال اور دوسری گیمز منعقد کی جاتیں، اس کے بعد فیملی کے ساتھ شام کا کھانا تناول کرنا، اپنی بیٹیوں اور مشل اوباما کے ساتھ رہائش کی تیسری منزل پر کھانے کے بعد کچھ وقت گزارنا اور ایک دوسرے سے گزرے ہوئے اور آنے والے دن پر گفتگو روٹین کا حصہ تھی اور یہی وہ وقت تھا جب ہمارا خاندان تنہائی میں ایک دوسرے کی سنتا اور سناتا، یہاں ہی فرسٹ لیڈی اور میں دن بھر کی سیاست پر بھی بات کرتے اور یہاں ہی میری بیٹیوں کو میری سیاست پر جملہ بازی کا موقع ملتا، یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد میں ایک روٹین کے مطابق ٹریٹی روم میں چلا جاتا جہاں رات گئے تک کام میں مصروف رہتا، اوباما کتاب میں دن بھر کی روٹین کے علاوہ ہفتہ اور اتوار کو اپنے تفریح ٹائم کا بھی ذکر کرتے ہیں جو وہ باسکٹ بال کھیلتے ہوئے گزرا کرتے تھے، یہاں ان کے اردگرد چند وائٹ ہائوس آفیشلز اور چند واشنگٹن میں رہنے والے دوسرے لوگوں سے تعارف ہوتا ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے تھے جن میں میوزک اور فلم انڈسٹری کے لوگ بھی شامل تھے اور ہفتہ، اتوار کو یہ گروپ مختلف کھیلوں میں ایک دوسرے سے خوب مقابلہ کرتا اور کئی مواقع پر اوباما کو کئی منٹوں کے لیے کھیل سے باہر بیٹھنا پڑتا اور اوباما کے مطابق وہ ریفریز سے احتجاج بھی کرتے مگر ہر کوئی انہیں نتیجہ دکھانے کے لیے تیار دکھائی دیتا، صدر اوباما صدارت کے آخری دور میں فرسٹ لیڈی کی ذہنی مشکلات کو دیکھ کر افسردہ نظر آتے ہیں تاہم وہ کچھ نہ کرسکنے کی پوزیشن میں اپنے آپ کو پاکر افسردہ بھی ہیں اور ناراض بھی، اسی مشکل وقت میں اوباما ایک خواب کئی بار دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں، وہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو انسانوں کی ایک پرسکون وادی میں پاتے ہیں، جہاں فضا کھلی اور روشن ہے۔ ان کے ساتھ نہ ہی سیکورٹی والے ہیں اور نہ ہی میڈیا ان سے بات کرنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے، سورج چمک رہا ہے اور وہ اکیلے چلتے ہوئے ایک چھوٹے سے اسٹور میں چلے جاتے ہیں اور پانی کی ایک بوتل خریدکر باہر کھلی جگہ میں لگے ایک بینچ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور اس پرسکون ماحول میں بوتل کھول کر پانی کے دو گھونٹ پی کر بوتل بند کردیتے ہیں اور وہاں کی رواں زندگی سے لطف اندوز ہونے میں مگن ہوجاتے ہیں اور ایسا محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے لاٹری جیت لی ہو اور ایسے مراحل پر ان کی آنکھ جاتی رہی ہے۔ اوباما نے اپنی صدارت کے دوران مخلوق خدا کے لیے زیادہ مشکلات پیدا نہیں کیں، ان کی پیدائش ایک مسلمان گھرانہ میں ہوئی، انہیں اکثر بڑے مبصرین ایک معتدل مزاج اور ایک قابل امریکی صدر مانتے ہیں۔ انہوں نے ہر طرح کے دبائو برداشت کیے اور صدارتی حلف بارک حسین اوباما کے نام سے اٹھایا جو ایک بڑا جرأت مندانہ قدم تھا۔ امریکی اور مغربی نظام ہائے ریاست اس کو وہ لچک مہیا نہ کرسکے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وہ کچھ کرجاتا کہ تاریخ اسے ہمیشہ یاد رکھتی، ان حقائق اور اس کے خواب کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو شک نہیں رہ جاتا کہ اوباما صدارت کے دورانیہ میں مخصوص حالات میں گزرے اس وقت کو ’’پنجرہ میں بند پرندہ‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اگلی زندگی کی تصویر بھی ہو سکتی ہے، جس سے وہ بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تمام طاقتوروں کو اچھے کام کرنے کی توفیق دے اور ہمارا حامی و ناصر رہے۔ 
تازہ ترین