• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ عجز بیان ہے کہ”عمران بلندی سے گرا اور محفوظ رہا“
اصل بات یہ ہے کہ وہ”اونچائی “ سے گرا اور محفوظ رہا“ بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اونچائی سے گرا تاکہ بلندی کی طرف جاسکے۔ یہ معجزہ ہی نہیں قدرت کی طرف سے عوام کے لئے اک اشارہ بھی ہے اور نیک شگون بھی کہ عمران نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔”بلندی“ اور”اونچائی“ کے درمیان باریک سا فرق واضح کرنے کے بعد اک اور دلچسپ ڈایمئینشن کہ”شوکت خانم“ کی گود میں پرورش پانے والے عمران کو زندگی کے نازک ترین مقام پر پناہ بھی”شوکت خانم“ کی گود میں ہی ملی اور ماں کی گود سے محفوظ پناہ گاہ ممکن نہیں۔
سب سے پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی تمام تر سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کیا، پھر میاں نواز شریف نے عمران کے لئے صحتیابی کی دعا کی، میاں شہباز شریف عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ باقی قائدین کی طرف سے بھی نیک خواہشات، صدر مملکت کی طرف سے افسوس، دعائیں اور پھول، تو سچ یہ ہے کہ مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ کاش ایسے رویوں کی جھلک جگہ جگہ دکھائی دے کہ یہ سیاست کا میدان ہے بزکشی کا نہیں اور یہ بھی قطعاً ضروری نہیں کہ ایسے جذبات و احساسات کے لئے حادثوں کا انتظار کیا جائے۔ ہم باتیں بہت بناتے ہیں لیکن عملی زندگیوں میں”گریس“ کی کمی ہی نہیں ،شدید قحط ہے حالانکہ ہم تو ان کی روایات کے وارث ہیں جو میدان جنگ میں دشمن کے گھوڑے کی موت پر اپنا بہترین گھوڑا دشمن کو تحفہ کردیا کرتے تھے اور دشمن کی بیماری پر اس کے علاج کے لئے بے چین ہوگئے۔ ظاہر ہے میرا اشارہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف ہے کہ سلطان جیسے عالیشان لوگوں کا ذکر آسان لیکن اس پر عمل خاصا مشکل ہے۔ ہم اچھے برے، نیکو کار ہوں یا گنہگار…آپس میں گہرے رشتے دار ہیں۔ ہمارا رب، رسول کعبہ اور کتاب ایک کہ اگر صرف ماں اور باپ ایک ہونے سے ہم ایک دوسرے کے ”سگے“ ہوجاتے ہیں تو رب، رسول کعبہ اور کتاب کے”ایک “ہوتے ہوئے ہم آپس میں”سوتیلے“ کیسے ہوگئے؟ لیکن کچھ لوگ کفر کے فتوؤں تک چلے جاتے ہیں۔ ایسے منفی رویے نیچے تک سرایت کرجاتے ہیں کیونکہ قوموں کے لئے ان کے قائدین رول ماڈل اور انسپائریشن کے چشمے ہوتے ہیں۔عوام اشراف کے نقال ہوتے ہیں اور ”اشرافیہ“ دولت ا ور طاقت نہیں”رویہ“ کا نام ہے۔بے شک کوئی زرداری بلوچ ہے کوئی نیاز ی پٹھان، کوئی کشمیری اور کوئی اردو سپکینگ لیکن”ماں“ ایک ہے، یہ مادر وطن جس کی دیکھ بھال، خدمت خاطر، بہتری بھلائی سب بیٹوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ کیا ہوا کہ کوئی ماں کی چادر بیچ کھائے، کوئی اس کا زیور لے اڑے، کوئی بیٹا اس کے سہاگ کی نشانیاں نیلام کردے اور کوئی ماں کے علاج کی رقم مجروں پر لٹا دے اور کوئی دھوکے سے ماں کی جائیداد بیچ کر طوائف کے کوٹھے کی بھینٹ چڑھادے۔مجھے معاف کیجئے لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اب تک ایسا ہی ہورہا ہے۔ سب اناؤں کے گھنگھرو پہن کر اپنی اپنی ذاتوں کے گرد محورقص و طواف ہیں اور مہلک ترین امراض میں مبتلا ماں کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں۔ آج کل ”تبدیلی“ کا نعرہ بہت مقبول ہے لیکن اس خاکسار ہشیار مجذوب کی یہ بات یاد رکھنا کہ تبدیلی تب تک ناممکن ہے جب تک ہمارے قائدین کی سوچ اور اعمال تبدیل نہیں ہوتے۔ لیڈر شپ کے رویے تبدیل ہوجائیں تو عوام کے”رویے“ بھی اک خود کارنظام کے تحت خود ہی تبدیل ہوجائیں گے، ورنہ سب الٹے بھی لٹک جاؤ تو یہاں کچھ تبدیل نہیں ہوگا، کوئی تبدیلی نہ آئیگی۔”لیڈر“ تو بڑی شے ہوتا ہے، یہاں تو ہم جیسے معمولی قلم کاروں سے بھی لوگ تو قعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ کئی سال پہلے میں نے اپنے کسی کالم میں غیر شعوری طور پر اپنی سگریٹ نوشی کا ذکر کیا تو شام گئے اک بزرگ خاتون ریڈر کا فون آیا۔ وہ شفقت بھری ڈانٹ اور سرزنش میں آج تک نہیں بھول سکا۔”تمہیں بہت سے لوگ بڑی چاہت سے پڑھتے ہیں جن میں ٹین ایجرز بھی بہت ہوں گے تو جس طرح تم نے اپنے کالم میں سگریٹ نوشی کو رومانٹسائز کیا ہے اگر چند نوجوانوں نے بھی”انسپائر“ ہو کر سموکنگ شروع کردی ہو تو تمہیں اندازہ ہے تم سے کیسی غلطی اور زیادتی سرزد ہوئی“۔ میں نے اپنی حماقت کا اعتراف کرتے ہوئے معاف مانگی اور آئندہ احتیاط کا وعدہ کیا۔ جھک میں نے پھر بھی کہیں نہ کہیں ماری ہوگی لیکن اس واقعہ کے بعد میں بہت محتاط ہوگیا، ذمہ داری کا احساس بہت بڑھ گیا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لیڈر شپ کے رویے بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔ لوگ جب سنتے ہیں کہ فلاں بھی چور ہے، فلاں بھی ڈاکو ہے، فلاں بھی جیب کترا ہے تو پھر عوام کے لئے بھی چوری، ڈکیتی اور جیب کترنا ہی ”علم وہنر“ کی معراج قرار پاتا ہے۔ چور، ڈکیت اور ٹھگ ہی ان کے ”رول ماڈلز“ اور آئیڈیل“ بن جاتے ہیں۔اللہ پاک عمران کو اپنی امان میں رکھے اور اسے بھی توفیق دے کہ عوام کی امیدوں پر پورا اترے تو دوسری طرف اس حادثہ پر ہمارے سیاسی قائدین کا جو عمومی اجتماعی رویہ دیکھنے کو ملا وہ بہت حوصلہ افزاء ہے جس پر میں صدر زرداری سے لے کر نواز شریف اور الطاف حسین سے لے کر چودھری برادران تک سب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے رویوں میں ایسی بنیادی تبدیلیاں جنم لیں جو ایک حقیقی اور عظیم تر ”تبدیلی“ کی بنیاد بن سکیں۔
تازہ ترین