• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرآپ نے ووٹ ڈالا تو کیا آپ کو اندازہ ہے ، آپ لمحہ کے لئے ملک کے حاکم ہوں گے۔ آپ ایک فرمان پر اپنے اختیار اور حاکمیت کی مُہر ثبت کریں گے۔ وہی فرمان جو خود آپ کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔ وہ فرمان جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہے گا کہ یہ آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ ووٹ کی وہ پرچی جب تک سادہ ہو گی،کاغذ کا ٹکڑا ہوگی جوں ہی آپ اس پر اپنا حکم صادر کریں گے، وہ عہد نامہ بن جائے گی۔ وقت کا نقیب جب سرِ عام تاریخ کا نقارہ بجانے کے بعد باآوازِ بلندآپ کا فرمان پڑھ کر سنائے گا تو دنیا دیکھے گی کہ ملکوں کے مہتاب کیسے روشن ہوتے ہیں اور نہ ہوں تو پھر ان کو گہن کیسے لگتا ہے۔ ایک عقیدے کے مطابق گہن کے وقت انہیں ایک اژدھا نگل لیتا ہے اور جب تک اگل نہیں دیتا، اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ آج جب الیکشن سر پر ہے،اژدھے کا پیٹ اچھی طرح بھرا ہوا ہے اور ہمارا وجود گہنایا ہوا ہے۔
ووٹ کی پرچی پر مہر لگانا بڑا مشکل عمل ہے۔ اوّل تو پولنگ اسٹیشن تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے، پھر صحیح سلامت لوٹ کر آنا بدقسمتی سے خود ہمارے ہاتھ اور اختیار میں نہیں۔ ناگہانی آفات بھوکے چیل کووّں کی طرح سروں پر منڈلا رہی ہیں۔ دہشت گرد جس کام کے لئے پیدا ہوئے، وہ کام کئے جا رہے ہیں یعنی دہشت پھیلا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جس کام کے لئے وجود میں آئے ہیں ان سے وہ کام یا تو ہو نہیں پا رہا یا کوئی ان سے کہہ رہا ہے کہ چھوڑو، جانے دو۔
انٹیلی جنس انگریزی میں ذہانت کو کہتے ہیں۔ اب جی چاہتا ہے کہ لفظ چاہے یہی رہے مگر معنی کچھ اور ہو جائیں۔ مخبری کے ان اداروں کو پہلے سے خبر ہوتی ہے یا پھر اتنے بھولے ہیں کہ خبر نہیں ہوتی۔ ہر روز درجنوں ٹارگٹ کلر پکڑ کر اور سر پر تھیلے منڈھ کر کیمرے کے آگے لائے جاتے ہیں۔ سُنا ہے بعد میں ان کو دہاڑی ادا کر کے گھروں کو بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ اصل ٹارگٹ کلر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ تاک تاک کر ٹارگٹ کو نشانہ بنائے چلے جا رہے ہیں اور کیسا ٹھیک نشانہ لگاتے ہیں ظالم۔ کوئی دن جاتا ہے کہ قبرستان تنگ پڑ جائیں گے اور پھر لینڈ مافیا سے زمینیں مانگنی پڑیں گی۔
ایسے میں اُن لوگوں کو دوچار مشورے دینے کو جی چاہتا ہے جو ووٹ ڈالنے کی نیّت باندھ رہے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اگر جان کو خطرہ ہو تو گھر میں بیٹھئے۔ اہل ِ وطن جئیں گے تو وطن جئے گا۔ ایک انسان کی زندگی تو پوری انسانیت کی زندگی کی علامت ہے۔
دوسرا مشورہ یہ کہ اگر جان محفوظ ہو تو ضرور جائیے اور بقول شخصے، فجر کے بعد ہی لائن لگا لیجئے، یہی قطار ہمیں مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کی قطار میں کھڑا کرے گی ورنہ اتنی دور جگہ ملے گی کہ ٹکٹ کی کھڑکی تک پہنچتے پہنچتے ہاؤس فل ہو چکا ہوگا اور پھر ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے اندر بیٹھا ہوا جوان پچھلے دروازے سے نکل کر آواز لگائے گا ’سو روپے والا ایک سو دس میں‘۔
تیسرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کے بارے میں آخری فیصلہ کر لیجئے اور کرنے کے بعد اس پر سختی سے قائم رہئے۔بہت سے لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ بے کار بیٹھے ہوئے یہ لوگ آئے دن پیش آنے والے واقعات سے بے شمار مطلب نکالیں گے، نئے نئے معنی پہنائیں گے، ہر بات میں چالبازی اور سازش ثابت کریں گے اور کسی نہ کسی امیدوار کو ذلیل و خوار قرار دےئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ لوگ آپ کے کان بھریں گے، طرح طرح کے مشورے دیں گے ۔ سب سے زیادہ جو مشورہ آپ کو ملے گا وہ یہ ہوگا کہ جسے آپ چن رہے ہیں وہ تو دوسرے نمبر پر آئے گا، اپنا ووٹ ضائع نہ کریں اور اوّل آنے والے کو ووٹ ڈالیں۔ ایسے مشوروں کو حقارت سے ٹھکرا دیجئے۔ ووٹ ڈالنے کا مقصد صرف جتوانا یا ہرانا ہی نہیں ہوتا، ووٹ ڈالنے کا مقصد خود کو شمار کرانا ہوتا ہے۔ آپ کا پسندیدہ امیدوار چاہے کسی نمبر پر آئے، آپ شمار ضرور ہوں گے۔ آپ یقینا گنے جائیں گے۔ اگر آپ کا امیدوار حزبِ اختلاف میں بیٹھتا ہے تو یاد رکھئے کہ حزبِ اختلاف والا بھی آسمان سے نہیں ٹپکتا، عوام کا عطا کیا ہوا مینڈیٹ لے کر آتا ہے، با اختیار بن کر آتا ہے۔ وہ اپنے سینے پر ستارے نہیں سجا سکتا لیکن اپنے حامیوں اور طرف داروں کی تعداد کا ہندسہ بڑے فخر سے آویزاں کرتا ہے۔ جتنی بڑی تعداد اس کو سہارا دینے والوں کی ہوگی، اتنی ہی وزن دار اس کی آواز ہوگی، اتنی ہی پُراعتماد اس کی صدا ہوگی اور اتنی ہی قدر و منزلت اس کی رائے کو حاصل ہوگی۔
اور اگر آپ کا پسندیدہ امیدوار حاکمِ وقت بننے جا رہا ہے تو صرف حاکمیت کی سند کافی نہیں۔ اس کی پشت پر عوام کا ہونا ضروری ہے۔ وہ جتنے زیادہ کندھوں پر سوار ہوکر آئے گا، اتنی ہی عرش کی رفعتوں کو چھوئے گا۔ دنیا اس کی بلندیوں کا اعتراف کرے گی اور میڈیا اس کی کہی ہوئی ذرا ذرا سی بات کو وقعت دے گا۔
دھوپ میں بھی،گردو غبار میں بھی کھڑے ہوکر اپنا ووٹ ڈالئے۔ یہ کام اپنے مالی، باورچی، چوکیدار اور ڈرائیور پر نہ چھوڑئیے یا تو ووٹ دیجئے اور نظام حکمرانی کا حصّہ بنئے اور اگر ووٹ نہیں دیتے تو پھر پانچ سال چپ رہئے۔ حق آپ کو بے شمار حاصل ہیں لیکن پھر ذمّہ داریاں کہنے کو دوچار ہیں مگر یاد رکھئے، ہیں بہت کڑی۔
تازہ ترین