• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تک بہت سے باخبر حضرات بلکہ عوام کا ایک بڑا حصہ بھی جان چکا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت عام انتخابات جیتے گی اور کون کون سی ہار جائے گی۔ شکست کے بعد رونا دھونا اور دھاندلی کا الزام پاکستان کی انتخابی سیاست کا خاصا رہا ہے اس بار بھی اس طرح کا واویلا ضرور کیا جائے گا کہ ہمیں لیول پلینگ فیلڈ میسر نہ آسکا۔ مگر اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی حکومت کے کسی عنصر نے کوئی اس طرح کی سازش کی کہ کچھ جماعتیں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )کھل کر انتخابی مہم نہ چلا سکیں یہ تو دہشت گردوں کی اسکیم تھی جس پر انہوں نے عمل کیا اور ظاہر ہے ایسے عناصر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں نہیں۔ اگر پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم صحیح طور پر انتخابی مہم نہ چلا سکنے کا گلہ کرتے ہیں تو دہشت گردی سے تو مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) بھی محفوظ نہیں رہی اور اس کے اورکزئی ایجنسی اور ہنگو کے انتخابی جلسوں پر بدترین خونی حملے کئے گئے۔ یہ وہ جماعت ہے جسے طالبان کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ اگر دہشت گردی کے حملوں اور ان کے خوف سے کوئی ایک جماعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے تو وہ اے این پی ہے جبکہ الطاف حسین تو روزانہ مختلف شہروں میں ٹیلی فونک خطاب کرتے ہیں۔ پی پی پی نے تو پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم صرف اور صرف ٹی وی اور اخبارات پر اشتہارات کے ذریعے ہی چلانی ہے اور کوئی ایک بھی بڑا جلسہ کسی شہر میں منعقد نہیں کرنا۔ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کا حکومت پر الزام لگانا کہ انہیں انتخابی مہم کھل کر چلانے سے روکا گیا شرم ناک ہے کیونکہ تمام کی تمام عبوری وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف اور صرف ان کے چنے ہوئے افراد پر مشتمل ہیں اور مسلم لیگ (ن) تو بے چاری پیٹتی ہی رہ گئی اور اس کی ایک نہ سنی گئی۔ اس کی مرضی کی ایک بھی حکومت نہ بن سکی۔ ہاں البتہ اگر یہ جماعت شور مچائے کہ عبوری حکومتیں اس کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کر رہیں تو اس کی بات میں کچھ وزن ہو سکتا ہے مگر اس نے بھی اس طرح کی شکایات کرنے سے گریز کیا اور اس کی ایک ہی کوشش رہی کہ ہر صورت انتخابات وقت پر ہو جائیں جن میں وہ سب سیاسی قوتوں سے پنجہ آزمائی کر لے۔
جس جس پارٹی کو انتخابی دنگل میں شکست کا سامنا ہو اسے کھلے دل سے اس انجام کو تسلیم کرنا چاہئے اور آگے بڑھے تاکہ ملک مزید شکست و ریخت سے بچ سکے۔ جیتنے اور ہارنے والوں کو انتخابی مہم کی تلخیاں ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف پاکستان کا سوچنا ہوگا۔ جو پارٹی یا پارٹیاں حکومت بنائیں انہیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیں اور جب ان کی ٹرم پوری ہو جائے تو پھر ان سے حساب کتاب کر لیں جیسے پی پی پی اور اس کے اتحادی جنہیں اب شکست کا سامنا ہے کا کیا جارہا ہے۔ اس بار پی پی پی یہ بہانہ نہیں کرسکی کہ اسے اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اسے پورے پانچ سال ملے اور جس طرح اس نے اور اس کے حواریوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جو اسے سزا ان انتخابات میں مل رہی ہے اس کے اعمال کا ثمر ہے۔ وہ حضرات جو صدر آصف علی زرداری کی بے نظیر سیاسی دانشمندی کا ڈھول پیٹتے ہیں انہیں اس طرف بھی غور کرنا چاہئے کہ محترم لیڈر نے پی پی پی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ نہ اب اس کا کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سمت۔ یہ ووٹ بھی مانگ رہی ہے تو صرف بھٹو خاندان کی شہادتوں کا سہارا لے کر نہ کہ صدر زرداری کے عقل کل اور ان کی دانشمندی کی بنا پر۔ اس کے اچھے اور برے اعمال میں ایم کیو ایم ، اے این پی اور قاف لیگ برابر کی شریک ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اقتدار کا مزہ بالکل اس کی طرح ہی لوٹا۔
اس سے کوئی انکاری نہیں کہ ملک کے مسائل بے شمار اور بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ آئندہ انتخابات کیلئے انگنت چیلنج موجود ہیں ان میں سب سے بڑا عوام کو عملی اقدامات سے احساس دلانا ہے کہ یہ دور پچھلے سے بہت مختلف ہے۔ انہوں نے پانچ سال بڑا سخت رگڑا کھایا ہے۔ وہ فرق محسوس کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح پچھلی حکومت بدترین تھی اور نئی اس سے بہتر ہے۔ یقینا عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں اگر فوری طور پر لوٹ مار کا بازار بڑی حد تک کم ہو جائے، صاف و شفاف نظام متعارف کرایا جائے اور ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کافی کم کر دیا جائے تو کسی حد تک پسے ہوئے لوگوں کے زخموں پر مرہم پٹی ہو جائے گی۔ یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہو گا جب نئی حکومت کو آرام و سکون سے کام کرنے دیا جائے گا۔ اگر سازشی عناصر مختلف قوتوں سے مل کر سازشیں کرتے رہے تو نئی انتظامیہ اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کی جنگ میں زیادہ وقت صرف کرتی رہے گی اور اس کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے گی۔ اب اس میں تو کسی کو شک نہیں رہا کہ پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہے اور ان کے مخالفین خصوصاً نون لیگ اور جے یو آئی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔
جماعت اسلامی کو کچھ زیادہ حصہ نہیں مل سکے گا جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا نون لیگ اور جے یو آئی سے انتخابی اتحاد نہ ہونا ہے۔ ان برے حالات میں بھی پی پی پی کی سر توڑ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے اور ایم کیو ایم اس کی اتحادی رہے۔ اگر وہ یہ مقصد حاصل کر لیتی ہے تو وہ سمجھے گی کہ اس نے عام انتخابات جیت لئے کیونکہ اس کی طاقت کا اصل قلعہ اس کے زیر کنٹرول ہی رہا حالانکہ اگر گزشتہ پانچ سال کی بدانتظامی پر نظر ڈالی جائے تو صوبہ سندھ سرفہرست رہا جہاں ٹپی جیسے ایکٹرز کا راج تھا جو کسی کو جوابدہ نہیں تھے۔ اگر نون لیگ اکثریت جماعت کے طور پر سامنے آتی ہے تو اسے بہت سے آزاد امیدوار جو انتخابات جیتیں گے کا سہارا لینے کی ضرورت پڑے گی اس کے علاوہ اسے چھوٹی جماعتوں کی مدد بھی درکار ہوگی تاکہ اس کی پوزیشن مزید بہتر ہو جائے۔ اگر وہ واضح اکثریت نہ حاصل کرسکی تو اس کی حکومت میں اعتماد کی کمی رہے گی۔ ووٹرز کو چاہئے کہ وہ کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت دیں تاکہ ایک لولی لنگڑی حکومت جو ہر وقت اپنی زیست کیلئے جنگ لڑتی رہے وجود میں نہ آسکے۔ مضبوط حکومت جسے واضح عوامی مینڈیٹ حاصل ہو گا بہتر طور پر چیلنجوں کا مقابلہ کرے گی۔
آخر میں رب ذوالجلال سے عمران خان کیلئے خلوص دل سے دعا کہ وہ جلد از جلد انہیں صحت مند کر دے تاکہ وہ اپنی بھرپور سیاست کو جاری کر سکیں۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں تیسری سیاسی قوت کی ضرورت تھی تاکہ عوام کے پاس دو کے علاوہ بھی آپشن میسر ہوں۔
تازہ ترین