• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر بار ہی لکشمی کے پل سے گزرتے ہوئے ، سمانا مجھے یاد کراتی تھی کہ عصمت آپا اور منٹو صاحب کے یہاں بیٹھ کر اور اس جگہ کا حوالہ دیتے ہوئے کئی کہانیاں لکھی تھیں ۔ کرشن چندر نے اور عصمت آپا نے ماہیم کوکس طرح بیان کیا تھا ۔ مالا بار کے علاقے کو منٹو نے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے ۔ پرانے بھنڈی بازار جسے اب محمد علی روڈ کہتے ہیں وہاں ہم نے ڈبے والوں کوگزرتے دیکھا ۔ فوراً یاد آیا ، یہ کلچر تو کراچی میں بھی تھا مگر حالات نے اتنا دگرگوں کیا ہے کہ لوگ اپنا ڈبہ خود ہی لیکر چلتے ہیں ۔ مگر بمبئی میں ابھی تک ہرچند کم ہوگیا ہے مگر ڈبہ کلچر ابھی بھی زندہ ہے ۔ یہ لوگ گھروں سے کھانا لیکر، دفتروں میں کبھی سائیکلوں پر تو کبھی گاڑیوں میں بھر کر دفاتر میں دینے کے لئے جاتے ہیں ۔
پہلے میں دادر کے علاقے میں ٹھہری تھی ۔ وہاں ہردرخت ، ہر بلڈنگ اور ہر سڑک پر کبوتر ہی کبوتر نظر آرہے تھے ۔ پتہ چلا کہ جین مذہب کے لوگوں میں عقیدہ ہے کہ کبوتروں کو دانہ کھلانا چاہئے۔ یہی حال جوھوپہ ، ورلی ، بینڈرا ، اندھیری کے کنارے کنارے تیز سمندر کے قریب بھی لوگوں کو صبح صبح تھیلا بھرے آنے اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے دیکھا ۔ ویسے تو جنوبی ہند میں جین مذہب کے لوگ زیادہ ہوتے ہیں مگر بمبئی تو کمال کاشہر ہے ۔ یہاں تو ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ آباد ہیں ۔ مہارشٹری تو خیر اس لئے کہ یہ صوبہ بھی مہارشٹر ہے اور لوگ یہی زبان بولتے ہیں مگر جس کونے میں نکل جاؤ وہاں انگریزوں کی بنائی ہوئی بلڈنگوں میں سرکاری دفاتر کے علاوہ ، مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ آباد نظر آتے ہیں ۔ بمبئی میں گجراتی ، مارواڑی ، پارسی ، یہودی ، آغا خانی ، بوہرے ، عیسائی ، کچھی اور بے شمار بہاری نظر آتے ہیں۔ ان سب کے عبادت خانے بھی ہیں ، مسلمان بھی کافی ہیں ۔ اس لئے ایک ہی قطار میں سکھوں کا گوردوارہ ، مسلمانوں کی مسجد ، ہندووٴں کے مندر اور عیسائیوں کے چرچ نظر آتے ہیں ۔ کوئی کسی کی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچاتا اور سب امن اور سکون کے ساتھ رہتے ہیں ۔ مجھے یہ سنکر اپنے اندر خلش محسوس ہوئی مجھے سمانا نے جوکہ ڈی آئی جی مہاراشٹر کی بیگم ہیں اور ہیرے کی پہچان کاکورس مکمل کیا ہے ۔ سمانا نے پوچھا ، آپا آپ کیا دیکھنا چاہیں گی ۔ امیتابھ بچن کاگھر کہ گیلریاں کہ کچھ اور ۔ میں نے کہا مجھے ’چال‘ کا علاقہ دکھاوٴ ۔ یہ وہ انگریزوں کے زمانے کے ایک کمرے کے گھر ہیں جو دادر کے قریب بنے ہوئے ہیں ۔ ایک کمرے کے گھر میں میاں بیوی اور سات بچے بھی رہتے ہیں، سب کاکامن غسل خانہ ہے ۔ جہاں جانے کے لئے لوگ قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ’ چال ‘ کاعلاقہ انگریزوں کے زمانے سے ہے لوگ یہیں پیدا ہوئے ، بڑے ہوتے اور مرجاتے ہیں۔ ’چال ‘ کے نام پہ سنا ہے فلم بھی بنی ہے جس میں فاروق شیخ نے کام کیا ہے۔ وہ گھر اور وہ بلڈنگیں جن کی حالت بہت خراب ہے وہ60برس سے مقیم رہائشی لوگوں کے گھر ہیں ۔ آج سے60برس قبل جو کرایہ لگایا گیا تھا حکومت کے قانون کے مطابق ان کا کرایہ بڑھایا نہیں جاسکتا ہے، لوگ خود اپنا کوئی پیسہ نہیں لگاتے ہیں ۔ جالی پھٹ گئی ہے تو اس کی مرمت نہیں ، سفیدی عمروں سے نہیں ہوئی ۔ خستہ حالی میں یہ بلڈنگیں کھڑی ہیں ۔ ماہیم کی طرف جاتے ہوئی سمانا نے بتایا کہ یہ الٹے ہاتھ لتا سنگیشکر کا فلیٹ ہے ۔ یہاں سرکار فلائی اوور بنانا چاہتی تھی مگر لتاجی نے رکوادیا کہ ان کی بلڈنگ کی قیمت یوں کم ہوجاتی تھی۔
ورلی کے علاقے سے گزرنے کے بعد دھوبی گھاٹ آجاتا ہے ۔ یہ علاقہ کوئی ایک کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے ۔ سیکڑوں مرد اور عورتیں کپڑے دھوتے نظر آرہے تھے ۔ سیکڑوں گھاٹ بنے ہوئے تھے ۔ دھوپ بہت تیز تھی مگر سب لوگ کپڑے دھونے اور سکھانے میں مصروف ملے ۔ سنا ہے دھوبی گھاٹ پہ بھی فلم بنی ہے چونکہ مجھے فلم دیکھنے کا وقت نہیں ملتا اس لئے میں فلم اور حقیقت میں تمیز کرنے سے قاصر رہی ۔ قلابہ کے قریب ہی مچھیروں کی بستی تھی ۔ میں اسے دیکھنے کے لئے کھڑی ہوئی تو ڈرائیور فوراً بولا ” بس یہیں پاکستانی دہشت گرد کشتیوں میں بیٹھ کر آئے تھے “ ۔ میں خاموش ہوگئی مگر وہ مسلسل بولتا رہا ”یہیں سے وہ تاج ہوٹل گئے “ ٹرائی ڈینٹ ہوٹل گئے اور یہودیوں کے عبادت خانے گئے“۔ میں نے اسے بارہا منع کیا کہ چپ رہو مگر وہ بولتا رہا ” ابھی لیو پورٹ کیفے میں جائیں گے اس کے سارے شیشے انہوں نے توڑ دیئے تھے۔ میں نے خشمگیں ہوکر کہا، اچھا بس کرو مجھے مالا بار ہل لے جاوٴ ۔ مجھے جناح ہاوٴس دکھاوٴ مگر وہاں تو جناح صاحب کا گھر نہیں، سرکاری دفتر ہے ۔ میں نے سمانا سے کہا اسے چپ کراوٴ چلو جناح صاحب کا گھر دیکھیں، میرے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے وہ مجھے اس نئے پل پر لے گئی جو اندھیری اور بینڈرا کے علاقوں کی طرف جاتا تھا ۔ یہیں سب اسٹوڈیوز ہیں اور فلم والوں کے گھر ہیں۔ دلیپ صاحب یہاں نہیں رہتے ہیں وہ مالا بار ہل کے علاقے میں رہتے ہیں ۔ اب ہم جناح ہاوٴس سے ہوتے ہوئے واپسی میں لکشمی کے پل سے اتر کر ٹرائی ڈینٹ ہوٹل کی سمت آگئے کہ اب دو دن کے لئے ہمارا قیام یہاں تھا ۔ میں نے کہا چلو ذرا کارٹر روڈ بھی ہوآئیں ، بولیں وہ تو بہت دور ہے۔ کیا دیکھنا ہے وہاں آپ نے ” میں نے کہا کارٹر روڈ پر نوشاد صاحب کاگھر تھا، باقر مہدی وہیں رہتے تھے ۔ مجروح صاحب اور اخترالایمان بھی قریب ہی تھے ہر چند اب وہاں کوئی نہیں ۔ خیر چلو دل دکھے گا، واپس چلتے ہیں ۔ ٹرائی ڈینٹ بھی دہشت گردوں کی آما جگاہ بنا تھا مگر اب تاج ہوٹل کی طرح ہزاروں غیر ملکی مہمانوں کا مرکز تھا۔ سمندر کے کنارے یہ تمام ہوٹل واقع تھے، کھڑکی سے سمندر کی لہریں سورج کی شعاعوں سے لپٹ کر کمرے میں آرہی تھیں ۔
رات کو مشاعرے سے لوٹے تو ڈرائیور نے کہا میں آپ کو اتبانی کاگھر دونوں طرف سے دکھاتا ہوں ۔ 126منزلہ گھر خالی پڑاہے، صرف600نوکر وہاں رہتے ہیں کہ کسی نے شک ڈال دیا ہے کہ اس گھر میں آپ رہیں گے تو نحوست آسکتی ہے ۔ میں سوچتی رہی کہ اتنی دولت خرچ کرنے والے پر ڈرائیور کو بھی ترس آرہا تھا اور مجھے خود پہ کہ اتنا تھوڑا وقت تھا کہ میں سوائے جاوید صدیقی اور فریدہ کے ، کسی اور سے مل بھی نہ سکی ۔ عزیزی الیاس شوقی خود آگئے تھے۔ معافی چاہتی ہوں گلزار صاحب ، شبانہ اور جاوید کے علاوہ ، ساگر سرحدی ، مجھے وقت ملتا تو میں کم ازکم ایک شام توتم لوگوں کے ساتھ گزار لیتی۔ ویسے فیصل جعفری بیمار تھے ان کے لئے سلام بھیج دیا اور حاجی علی کی درگاہ کو دور سے ہی سلام کرتے ہوئے واپسی کارستہ لیا، تین گھنٹے کاسفر16گھنٹے میں طے ہوا، شاباش پی آئی اے۔
تازہ ترین