• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی ذہن اور زبان میں گہرا تعلق ہے۔ خیالات ذہن میں لفظوں کا روپ دھارتے ہیں اور اس کے بعد یہ زبان کو منتقل کردیئے جاتے ہیں جو اُن کو صوتی عصبوں کے ذریعے ادا کر دیتی ہے۔ کئی لوگوں کے ذہن میں خیالات اور باتیں آتی رہتی ہیں۔ اگر وہ خاموش رہتے ہیں تب بھی خیالات کے ساتھ ساتھ زبان کے ٹشوز پھڑکتے رہتے ہیں۔ مراقبے میں ایک طریقہ ایسا ہے کہ اس میں زبان کو ساکت کر دیا جاتا ہے۔ زبان ساکت ہونے کا مطلب ہے کہ اب ذہن نہیں سوچ رہا۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے ذہن اور زبان میں ہم آہنگی نہ ہو تو زبان پھسل جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسان سڑک پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے پر دھیان نہ دے اور اُس پر پاؤں رکھ دے تو پھسل جاتا ہے۔اگر انسانی ذہن کہیں اور بھٹک رہا ہو اور اس عرصے میں وہ شخص کسی سے بات کر رہا ہو یا تقریر کر رہا ہو تو اس کی زبان پھسل کر کچھ سے کچھ بول جاتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ الیکشن کی مصروفیات میں لیڈروں کے ساتھ اس قسم کی کیفیت دیکھنے میں آرہی ہے۔ مصروفیت زیادہ ہو گئی ہے، ذہنوں پر کئی طرح کا بوجھ ہے۔ اس لئے کئی تقریروں میں ان کی زبان پھسلتی جا رہی ہے۔ نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب جو 2ماہ کے لئے وزیر بنے ہیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ گئے کہ ہم پورے3سال جانفشانی سے کام کرتے ہوئے ملک میں امن و امان قائم کر دیں گے۔ صحافیوں نے پوچھا آپ تو دو ماہ کے لئے آئے ہیں، یہ تین سال کی بات کیسی؟ تو کہنے لگے میری زبان پھسل گئی تھی۔ اس طرح ایک جلسے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پُرزور انداز میں کہا کہ دوستو! الیکشن والے دن آپ سب شیر پر مہر لگائیں۔ شاید وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ شیر پر مہر نہ لگائیں لیکن زبان نے پھسل کر بات اُلٹ دی۔ شیر والی پارٹی کے کسی حامی نے اس پر تبصرہ کیا کہ” آہ بیچارے کے اعصاب پر اب شیر ہے سوار“۔ شیر والی پارٹی کے میاں شہباز شریف جن کی تقریروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سیریل عرصے سے چل رہا ہے، ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے پُرجوش انداز میں بولے ”ہم 2سال میں ملک سے بجلی ختم کر دیں گے“۔شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہم دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ یا بجلی کا بحران ختم کر دیں گے لیکن زبان نے پھسل کر بات کہاں پہنچا دی۔
ہم اپنی قومی زندگی کی تاریخ میں دیکھیں تو اہم لوگوں کی زبان کے پھسلنے کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ مشہور شاعر تابش دہلوی ریڈیو پاکستان سے مسعود تابش کے نام سے خبریں پڑھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو کا ضابطہ تھا کہ اگر کوئی خبر غلط یا صحیح نہ پڑھی جاتی تو نیوز ریڈر کہتا” معاف کیجئے میں اس خبر کو پھر سے پڑھتا ہوں“ایک بار تابش صاحب سے ایک خبر پڑھنے میں غلطی ہوگئی ۔ غلطی کا احساس اس شدت سے ہوا کہ بولے”معاف کیجئے ! میں اس خبر کو پھر سے غلط پڑھتا ہوں“۔
ذوالفقار علی بھٹو جب برسراقتدار آئے تو 1973ء کے آغاز میں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا۔ اس جلسے میں سارے بڑے وزیر زمین پر عوام کے ساتھ بیٹھ کر تقریر سن رہے تھے۔ جوشِ خطابت میں ایک موقع پر اُن کی زبان ایسی پھسلی کہ ایک گالی نکل کر پورے جلسے میں پھیل گئی۔ یہ تقریر ریڈیو اور ٹیلی وژن سے براہ راست نشر کی جارہی تھی۔ بھٹو صاحب کو فوراً احساس ہوا اور انہوں نے عبدالحفیظ پیرزادہ کو (جو اس وقت وزیر اطلاعات و نشریات تھے) پکارا اور کہا…” حفیظ پیرزادہ اس گالی کو کاٹ دینا“۔زبان کے پھسل جانے کا ایک واقعہ جنرل ضیاء الحق کی قوم کے نام پہلی تقریر میں ہوا تھا جب انہوں نے مارشل لا لگانے کے بعد خطاب کیا تھا۔ اس تقریر میں ایک جگہ ان کی زبان پھسلی اور وہ کہہ گئے” میں 90دن کے اندر الیکشن کرادوں گا“۔حالیہ انتخابات کے لئے نگران حکومتیں قائم ہوئیں تو پنجاب کا وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو مقرر کیا گیا۔ ان کی حلف برداری کی تقریب براہ راست دکھائی جارہی تھی اور جب انہوں نے نظریہٴ پاکستان سے وابستگی اور وفاداری کے عزم کا اظہار کیا تو ان کے ایک دوست نے اس پر تبصرہ کیا کہ سیٹھی صاحب کی زبان پھسل گئی ہے۔
بہت پہلے جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف بننے کے بعد آئین پاکستان سے وفاداری اور اسے پامال نہ کرنے کا حلف اٹھایا تھا لیکن بعد میں انہوں نے 2بار جو اقدام کیا اس سے معلوم ہوا کہ حلف اٹھاتے وقت ان کی زبان پھسل گئی تھی۔پاکستان کے تعلق سے زبان پھسلنے کے واقعات عالمی سطح پر بھی ہوتے رہے ہیں مثلاً اکثر بھارت کے وزیراعظم یا وزیرخارجہ جب یہ بیان دیتے ہیں کہ ”ہم پاکستان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں“ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی زبان پھسل گئی ہے۔ اسی طرح جب امریکہ کے صدر یا کوئی وزیر یہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی سا لمیت اور آزادی کا احترام کرتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ زبان بڑی زور سے پھسلی ہے۔زبان کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے بارے میں کیا خوب کہا گیا کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ پاکستان کو مختلف زبانوں کے پھسلنے کے زخم آئے دن لگتے رہتے ہیں اور پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم۔ پورا جو جسم داغ داغ ہے، مرہم کا پھایا کہاں کہاں رکھیں؟
تازہ ترین