• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈھاکا اجلاس ہو جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا، احمد رضا قصوری

کراچی (ٹی وی رپورٹ)سینئر قانون دان احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ مجھ پر 18حملے ہوئے، جب حملہ ہوتا تھا پارلیمان میں جا کر احتجاج ریکارڈ کراتا تھا ، پارلیمان میں ملک کے مسائل سے پردہ اٹھاتا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیتا تو وہ مجھ سے کہتے کہ ہم اسکی تحقیقات کرائینگے کہ آپ پر حملے کیوں ہورہے ہیں، حملوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں ڈھاکہ گیا، ذوالفقارعلی بھٹو کے اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد مجھ پر حملہ ہوا جسکے نتیجے میں مجھے تین گولیاں لگیں، میرے بھائی بھی حملے میں زخمی ہوئے جبکہ والد کو بھی شہید کردیا گیا ۔ مجھے جی ٹی روڈجانا تھا دشمن کو یہ بات معلوم تھی، اداکارمحمد علی وہاں موجود تھے کیونکہ وہ میری طرح جسامت رکھتے تھے انہیں نشانا بنایا گیا،ساتھ ہی انکا سیکرٹری بھی تھا وہ فائرنگ سے جاں بحق ہوگیا ۔ بلوچستان میں ملٹری ایکشن پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکمت عملی کیخلاف کھل کر تنقید کی جسکے بعد مجھے قتل کرنے کا فیصلہ ہوا، قاتلوں نے شیخوپورہ کے ایم این اے چوہدری اقبال کواحمدرضاقصوری سمجھ پران پر گاڑی چڑھا دی۔ اللہ نے مجھے زندگی دی،میں بچ گیا۔ چوہدری اقبال کے ساتھ تین ایم این ایز زخمی ہوئے اوران کی زبان بند رکھنے کیلئے وزارتوں سے نواز دیا گیا۔جب میں ان ایم این ایز کی عیادت کیلئے اسپتال پہنچا تو ایک شخص نظر آیا اور کہنے لگا کہ احمدرضاقصوری آپ درندہ صفت لوگوں کیخلاف کیوں کھڑے ہیں اصل ہدف آپ تھے ،گھر جائیں نوافل ادا کریں اس شخص کو 50سال سے تلاش کررہا ہوں لیکن وہ نظر نہیں آیا، میرپور آزاد کشمیر میں تقریر کررہا تھا کہ مجھ پر فائرنگ شروع ہوگئی، یقین سے کہتا ہوں کہ مجھے ہر بار ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر نشانہ بنایا گیا، متعلقہ ایس پی ہلاکوں خان کو رات ایک بجے فون کرکے بتایا کہ ایم این ایز پر فائرنگ ہوئی ہے اس کی تحقیقات کریں انہیں دھچکا لگا کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ میں جاں بحق ہوگیا ہوں، پھر ڈی آئی جی اورڈپٹی کمشنر بھی وہاں پہنچے۔ میرا خیال ہے کہ تمام انتظامیہ اس سازش میں شامل نہیں تھی۔ ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ احمد رضا ملک دشمن ہے اس کو قتل کرنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے کوئی ذاتی رنجش نہیں تھی۔ جب میں پیپلزپارٹی میں تھا تو ذوالفقار علی بھٹو کو مجھ پر بہت بھروسہ تھا لیکن میں ان کی جماعت سے الگ ہوا تو معاملہ خراب ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جو ڈھاکہ گیا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا لیکن میں ڈھاکہ گیا۔ میں ڈھاکہ اس لئے گیا کیوں کہ گفتگو سے معاملات کو سلجھانا چاہتا تھا۔ میں شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کیلئے نہیں گیا تھا بلکہ قومی اسمبلی کے سیشن میں گیا تھا۔ اگر وہ سیشن ہوجاتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے خواہش مند تھے وہ چاہتے تھے کہ انہیں ہر صورت اقتدار ملے جب میں نے ان سے اس حوالے سے بات کی تو وہ غصے میں آگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے میں نے پوچھا کہ آپ ڈھاکہ سیشن میں کیوں نہیں جارہے تو انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ہیں یا نہیں پھر انہوں نے کہا کہ سیاست صرف طاقت کا نام ہے میں نے انہیں کہا کہ میں ڈھاکہ جاوٴں گا۔ قومی اسمبلی کا سیشن اس لئے نہیں ہوا کیوں کہ بھٹو اور یحییٰ خان دونوں نہیں چاہتے تھے کہ سیشن کیا جائے۔ بھٹو نے یحییٰ خا ن کو لاڑکانہ میں مرغابیوں کے شکار پر بلایا اور وہاں پاکستان کا شکار کرلیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ ہم مشرقی پاکستان میں پیپلزپارٹی کو مضبوط کریں گے اور اگلی بار پورے ملک میں حکومت بنائیں گے لیکن انہوں نے میری تجویز نہ مانی۔ احمد رضا قصوری نے اپنے والد کے قتل کیس پر سوال کا جواب دیتے ہوئے مزیدکہا پہلے ایف آئی آر رجسٹر نہیں ہو رہی تھی اور پھر رجسٹر ہو گئی، احمد رضا قصوری نے بتایا کہ میرے والد محمد احمد خان قصوری کے قتل کی کچھ عرصے تحقیقات چلتی رہیں پھر اچانک بند ہوگئی جس سے عیاں ہو گیا تھا کہ طاقت ورلوگ ذمہ داران کو بچانا چاہتے ہیں جبکہ انہوں نے بھٹو کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ہوا تھا۔ احمد رضا قصوری نے بتایا کہ میرے والد کے قتل کے ایک گھنٹے کے اندر ہی ایف آئی آر درج ہو گئی۔ احمد رضا قصوری نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جوں ہی انہوں نے اپنے والد کی شہادت کی خبر سنی تو وہ حواس باختہ ہو گئے اور انہو ں نے وہاں مو جود پولیس کے اعلیٰ افسران پر غصہ بھی کیا۔

تازہ ترین