• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف و حکایت … ظفر تنویر
ہماری پہاڑی زبان کا ایک اخّان (کہاوت ہے) ہے کہ ’’پترتے مرسی پرنوں دامانڑں تھے پجّسی ناں‘‘ یعنی’’ بیٹا تو مرے گا لیکن بہو کا غرور تو ٹوٹے گا‘‘ دوسرے لفظوں میں ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کا نقصان کرنے کیلئے اپنا سب کچھ داؤپر لگا دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ کہاوت پاکستان کے سیاستدانوں کی روش اور ان کےرنگ ڈھنگ دیکھ کر یاد آئی یہ صحیح ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پاکستان کے موجودہ حکمرانوں سے بہت سی شکایات ہیں پاکستان کے عوام بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔ پاکستان کے کچلے ہوئے عوام کا حق بھی بنتا ہے کہ وہ خود پر تنگ کی گئی زندگی کی خوف میں چیخیں چلائیں لیکن دوسری طرف صورت یہ ہے کہ کوویڈ۔19 کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا نے ہمارےبہت سے چاہنے والوں کو ہم سے جدا کردیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب گرمیاں شروع ہوتے ہی ہمارے گھروں میں مکھی اورمچھر کش دوا چھڑکی جاتی تھی تو دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے کمروں میں اور برآمدے میں مری ہوئی مکھیوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے کچھ ایسا ہی منظر ان دنوں بھی نظر آتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جگہ جگہ، قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ لوگ اس طرح گر رہے ہیں جس طرح ہم بچپن میں اسپرے کے بعد اپنے گھروں میں مکھیوں کو گرتا دیکھتے تھے لگتا ہے کہ دنیا بھر میں تیزی سے گرتے ہوئے انسان مجھے اور آپ کو تو نظر آرہے ہیں لیکن پاکستان کے سیاستدانوں نے جس طرح آنکھیں موند رکھی ہیں اور انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔برطانیہ میں ہر روز تین چار سو لوگ کویڈ۔19 کا شکار ہو جاتے ہیں پاکستان میں بھی روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے لیکن ہمارے سیاستدان ہیں کہ دھڑا دھڑ جلسے کرنے میں لگے ہوئے ہیں یہ جاتے بوجھتے کہ عوام کے ہجوم میں اس وبا سے بچنے کیلئے طے شدہ ضوابط پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا ۔ملتان جلسے میں سب نے دیکھا کہ آصفہ بھٹو تمام وقت لوگوں کو اشاروں کنایوں سے ’’ماسک‘‘ لگانے کی تلقین کرتی رہیں لیکن ہجوم کی بھاری اکثریت نے ایسی کسی تلقین یا مشورے کی کوئی پروا نہ کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ عمران خان کو چلتا کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کا رویہ تو بالکل اس ساس کی طرح کا ہے جو محض اپنا بہو کا سرجھکانے کیلئے اپنے بیٹے کو بھی قربان کرنے کو تیار ہو جاتی ہے اس قسم کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویہ کا ذمہ دار صرف اپوزیشن لیڈروں کو ہی نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ وزیراعظم سمیت ان کی ٹیم بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہے۔ ایک طرف اپوزیشن کی سرگرمیوں کو کورونا وائرس کے پھیلائو کا ذمہ ٹھہرایا جارہا ہے اور دوسری طرف حکومتی وزرا اور مشیر دھڑلے سے یہی کام کررہے ہیں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی گوجرانوالہ اور اسد عمر کی سکھر میں سرگرمیاں صرف دو مثالیں ہیں حکومت جب چاہتی ہے جہاں چاہتی ہے جلسہ کرلیتی ہے چاہے یہ یوتھ کے حوالہ سے ہو یا اقتصادیات کے ، جب حکومت بھی وہی کچھ کرے گی جس سے وہ اپوزیشن کو روک رہی ہے تو اس سے ایک طرف وہ خود جہاں اپنے ہی الفاظ کی قدر و قیمت گرا دے گی وہیں دوسری طرف اپوزیشن کو بھی یہی سب کچھ کرنے کی شہہدے گی۔ اللہ کیلئے پاکستان اور پاکستان کے کچلے اور مرتے ہوئے انسانوں کا ہی کچھ سوچئے، ملازمت آپ انہیں دے نہیں سکتے ان کی بھوک ختم کرنے کا کوئی گُر آپ کو آتا نہیں آپ دونوں ساس اور بہو کی اس بد شکل لڑائی میں اپنے بچوں کو تو نہ ماریں۔ کووڈ۔19 کو ٹلنے دیں اور اس مشکل میں اگر کچھ کرسکتے ہیں تو اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر خود اپنا جائزہ لیں کہ نہ اس سے بڑا کوئی احتساب ہے اور نہ ہی جہاد۔
تازہ ترین