• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹی وی چینلز اور اخبارات کے مالکان سے معذرت کے ساتھ! خدا کا شکر ہے کہ آج سے انتخابی اشتہارات سے جان چھوٹ گئی ہے، عوام کو حق رائے دہی کے اس قومی مرحلے پر جس طرح مختلف سیاسی جماعتوں نے کنفیوژ کرنے کی کوشش کی، اس کے پیچھے کوئی ”اشتہاری“ ذہن ہی کارفرما لگتا تھا، تاہم جلسے جلوسوں اور ریلیوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں خوب گہما گہمی رہی۔ اس دوران ایک بہت اچھی بات یہ ہوئی کہ بہت سے اخباری اور ”میڈیائی“ چہروں سے غیر جانبداری کا نقاب اتر گیا اور ان کی شکلیں بلے جیسی ہو گئیں، ان میں سے دو تین ٹی وی چینلز اور دو تین کالم نگار ایسے تھے جنہوں نے کبھی اپنا اصلی چہرہ چھپانے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ان کے نظریات، ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت اور انہیں فنڈز مہیا کرنے والے لوگ پہلے دن سے سب پر آشکار تھے۔ مجھے اس جانبداری سے کبھی شکایت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ ضمیر کے مطابق ہو ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کوئی غور و فکر کرنے والا اور ملک و قوم سے محبت کرنے والا شخص یا ادارہ غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ قوم کی رہنمائی کرنے والے اگر غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھیں گے تو یہ رہنمائی نہیں، قوم کو کنفیوژ کرنے کی کوشش ہو گی جبکہ یہ کام کچھ قلمکار ایک عرصے سے سب سیاست دانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی صورت میں پوری تندہی سے انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
بہت عرصے کے بعد ایک نظریہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر مسلم لیگ ن پر ہلہ بول دیا، اس کار خیر میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کاندھے سے کاندھا ملائے نظر آئے۔ ایک طرف ”تیر“ سے ”شیر“ کو زخمی کرنے کی باتیں ہو رہی تھی اور دوسری طرف اسے ”بلے“ سے پھینٹی لگانے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ یہ ان دونوں جماعتوں کی مہربانی تھی کہ انہوں نے اپنی ملی بھگت کو عوام سے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی اس ”صاف گوئی“ سے پہلے بہت سے تجزیہ نگار یہ بات سامنے لا چکے تھے کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے فرنٹ مین کا ”’مقدس“ فریضہ انجام دے رہی ہے، چنانچہ پی پی پی کی قیادت اس دوران کہیں سامنے نہیں آئی، بلکہ ان کے ”کپتان“ ہی کو ساری مشقت تن تنہا جھیلنا پڑی۔
میرے خیال میں اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا کہ یوں قوم کو اپنا ووٹ استعمال کرنے کے لئے زیادہ سوچ بچار سے کام نہیں لینا پڑے گا کیونکہ ایک طرف مسلم لیگ ن ہے اور دوسری طرف ان کے پی پی پی اور ان کے اتحادی جو پانچ سال تک پاکستان پر حکومت کرتے رہے اور ہمارے اس پیارے پاکستان کی چولہیں ہلا دیں۔ اب تحریک انصاف بھی ان کا رستہ صاف کرنے کے لئے میدان میں آ گئی ہے۔ سو یہ الزام نہیں بلکہ سامنے کی بات ہے کہ جب آپ ان میں سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے تو اسی تناسب سے مسلم لیگ ن کے ووٹ کم ہوں گے، مگر اس کے باوجود یہ جماعت تمام تجزیوں اور کئے گئے سروؤں کے مطابق کم از کم ایک سو دس نشستیں حاصل کرے گی جبکہ تحریک انصاف سمیت اس سے متحارب جماعتیں تیس سے پچاس تک نشستیں بمشکل حاصل کر پائیں گی، چنانچہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگر وہ تیر پر، بلے پر یا سائیکل پر مہر لگائیں گے تو اس کا فائدہ صرف اور صرف پی پی پی کو ہو گا وہ اپنے ماضی کے اتحادیوں سے مل کر حکومت بنانے کی کوشش کرے گی اور یوں قوم مزید پانچ سال اندھیروں میں سرگرداں نظر آئے گی۔
اورہاں! امکان غالب یہ ہے کہ عمران خان اس اتحاد میں شریک نہیں ہوں گے، ان کا کام صرف اس اتحاد کے لئے رستہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں پہلے دن سے علم ہے کہ قوم ان کو ایک ہسپتال بنانے کا ”معاوضہ“ وزارت عظمیٰ کی صورت میں ادا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے الیکشن ہارنا ہی ہارنا ہے بلکہ ان کے لئے اپنی نشست جیتنا بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ سو یہی وجہ ہے کہ وہ 90 دن میں کرپشن ختم کرنے، ڈرون کو مار گرانے، امریکہ پر چڑھ دوڑنے اور اس طرح کی دوسری بڑھکیں لگا رہے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور مجھے بھی ان کی طرح یقین ہوتا کہ میں انتخابات میں صرف پی پی پی کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں، میرے اپنے ہاتھ کچھ نہیں آنا تو میں عوام سے اس سے بھی بڑے بڑے وعدے کرتا۔ مثلاً یہ کہ ہر بچے کی پیدائش پر اس کا ایک لاکھ روپیہ مہینہ وظیفہ لگا دوں گا اور اس پر ہر مہینے ایک لاکھ روپے کی انکریمنٹ بھی لگے گی، وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اب گیند عوام کے ”کوٹ“ میں ہے، انہوں نے کہاں ہٹ لگانی ہے اور کہاں نہیں لگانی، اس کا آخری فیصلہ انہی نے کرنا ہے۔
آخر میں ایک اور بات! ایک ناتجربہ کار جماعت کے ناتجربہ کار منتظمین کی وجہ سے عمران خان کو جو حادثہ پیش آیا، اس پر اپنوں اور غیروں سب کو دکھ ہوا بلکہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ان کی صحت یابی کے لئے گھروں میں آیت کریمہ کے ختم بھی کرائے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں گھر گھر بھی جاتی رہیں، ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں تھا کہ اس جماعت کا کلچر یہی ہے۔ اسی طرح میاں نواز شریف نے ایک دن کے لئے، اپنے سارے جلسے ملتوی کر دیئے۔ میاں شہباز شریف سارے کام چھوڑ کر عیادت کے لئے اسلام آباد سے سیدھے شوکت خانم ہسپتال پہنچے، مگر عمران خان نے انہیں ملنے سے انکار کر دیا، بلکہ ان کے کارکنوں نے شہباز شریف کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ دوسری طرف پی پی پی کے ”تھمب“ اور بدنام زمانہ شخصیت رحمان ملک شوکت خانم پہنچے تو تحریک کے کارکنوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور عمران خان ان سے بہت خوشدلی سے ملے۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ بلے کے انتخابی نشان پر لگنے والی مہر کس جماعت کے بیلٹ بکس سے ”برآمد“ ہو گی؟ یہ جادو کا ڈبہ ہے، ذرا دھیان سے ووٹ ڈالیں!
تازہ ترین