• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: خشونت سنگھ

متّرجم: مسعود منوّر

صفحات: 215،قیمت: 500 روپے

ناشر: بُک کارنر،جہلم۔

بعض تخلیقات اپنے مصنّفین کے ساتھ ایسے وابستہ ہوجاتی ہیں کہ محض تخلیق سےمصنّف کو شناخت کیا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں محض ’’آبِ حیات‘‘ کا نام لے لینا ہی کافی ہے کہ اس سے ذہن خود بخود اُردو ادب کے ممتاز ترین انشاء پرداز ،مولانا محمّد حسین آزاد کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ بھی ایسی ہی کتابوں میں شامل ہے کہ محض ناول کا نام لینے سے خشونت سنگھ کی تصویر نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر ہونے والے فسادات متعدّد شعراء، ادیبوں نے موضوعِ تحریر بنایا اور یوں ادب میں کئی شاہ کاروں نے جنم لیا۔ 

خشونت سنگھ کا یہ ناول بھی اُسی دَور کے فسادات کی فضا سے وجود میں آنے والی ایک کہانی ہے، جوپنجاب کے ایک گاؤں، منوماجرا کے گرد گھومتی ہے،جس کی زیادہ تر آبادی سکھ ہے،جب کہ مسلمانوں کی اکثریت مزارعوں پر مشتعمل ہے۔ تقسیم کا اعلان ہونے کے بعد ایک ٹرین نے پاکستان جانا ہے اورظاہر ہے ٹرین میںسوار ہونے والے لگ بھگ سارے ہی مسلمان ہیں۔ کچھ شرپسند سکھ فسادات کی نفرت انگیز فضا سے متاثر ہو کر منصوبہ بناتے ہیں کہ ٹرین کی گزرگاہ کے اوپر نصب آہنی رسّے کو اُس پر گرا دیا جائے، یوں مسلمانوں کو ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچنے کا موقع ہی نصیب نہیں ہوسکے گا۔ پھرکیسے جیل سے اُسی رات رہا ہونے والے دو سکھ ملزمان اپنی جان پر کھیل کر اس منصوبے کو ناکام بناتے ہیں؟

یہی کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ انگریزی میں تحریر کیے گئے پچاس کے ابتدائی عشرے کے اس ناول کا ترجمہ عام فہم اور رواںہے۔ اُردو ترجمے کی بدولت اب شاید اس مشہور ناول کو، پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد میسّر آسکے۔ پنجاب میں1915ء میں جنم لینے والےخشونت سنگھ کے بارے میں فقط اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے،جنہوں نے آزادی کی تحریک کو درجہ بدرجہ آگے بڑھتے دیکھا۔ تقسیمِ ہند کے فسادات کو قریب سے محسوس کیا اور یوں اپنے مشاہدات کو ناول کاپیرہن عطا کر دیا۔

تازہ ترین