• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کی اسرائیلی وزیرِ اعظم سے خفیہ ملاقات کی خبر گزشتہ دنوں دنیا بھر میں توجّہ کا مرکز رہی۔ تاہم، سعودی وزیرِ خارجہ نے اِس طرح کی کسی بھی ملاقات کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اس ملاقات میں صرف امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اور شہزادہ سلمان موجود تھے۔ یوں بظاہر سعودی وزیرِ خارجہ کی تردید کے بعد یہ معاملہ ختم ہوگیا۔ 

امریکی، اسرائیلی اور مغربی پریس میں اس ملاقات کا نہ صرف یہ کہ بہت چرچا ہوا، بلکہ اس کے ممکنہ اثرات پر بھی تبصرے کیے گئے۔ دراصل، عرب دنیا اور اسرائیل جس تیزی سے قریب آرہے ہیں، یہ خبریں اور تردید اسی سلسلے کی کڑی ہے۔متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرچُکے ہیں، جب کہ مِصر اور اردن پہلے ہی سے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایک اور مسلمان مُلک، تُرکی کے بھی تمام تر مخالفانہ بیانات کے باوجود اسرائیل سے تعلقات اپنی جگہ موجود ہیں۔ تیونس بھی اس سے مختلف معاہدے کر رہا ہے۔اس تناظر میں اس مبیّنہ ملاقات کو بہت اہمیت دی گئی۔ ماہرین کے مطابق اگر ایسی کوئی ملاقات ہوئی، تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہوگا۔ 

گزشتہ برس سے مِڈل ایسٹ کے حالات جس تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں اور خطّے میں اسرائیل کا کردار بڑھتا جا رہا ہے، وہ مسلم دنیا کے لیے غور فکر کا حامل ہے۔اِس منظرنامے میں دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ آخر خلیج کے ممالک اِتنی جلدی میں کیوں ہیں اور اُن کے فیصلوں کے مضرات کیا ہیں؟ کیا اِس صُورتِ حال میں یہ کہا جائے کہ ان ممالک کو مزید صبر سے کام لینا چاہیے تھا، مگر سوال یہ بھی ہے کہ کب تک صبر کیا جائے؟

مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ تبدیلیاں صدر ٹرمپ کی کوششوں اور خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے، جسے شاید ہی کوئی امریکی حکم ران، ایوان یا شہری ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے، کیوں کہ اسرائیل نہ صرف امریکا، بلکہ مغربی دنیا کا بھی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقت وَر اور قابلِ اعتماد حلیف ہے۔اسرائیل کے چین اور روس سے بھی اسٹریٹیجک تعلقات ہیں، جن پر ایران نے بھی کبھی انگلی نہیں اٹھائی، حالاں کہ وہ روس کا قریبی دوست ہے۔

گو کہ شہزادہ محمّد بن سلمان اور نیتن یاہو کی ملاقات کی تردید آچُکی ہے، لیکن اِس حوالے سے جو خبریں میڈیا میں گردش کرتی رہیں اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات نے اُنہیں اپنی سُرخیوں میں جگہ دی، اُنھیں بھی نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں۔اسرائیلی میڈیا نے ( اسرائیل نے بھی سرکاری طور پر اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی) دعویٰ کیا کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو اتوار کو خفیہ طور پر سعودی عرب گئے، جہاں اُنہوں نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی۔

جس مقام پر یہ ملاقات ہوئی، وہ سعودی شہر، نیوم بتایا جاتا ہے، جو امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے لیے طے تھا۔ امریکا چاہتا ہے کہ خلیج کے ممالک سے اسرائیل کے تعلقات معمول پر آجائیں اور اس پر ٹرمپ نے اپنی مِڈل ایسٹ خارجہ پالیسی کا فوکس رکھا۔ جب یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا اعلان کیا، تو اُس موقعے پر سعودی عرب نے محتاط انداز میں اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدہ نہیں ہو جاتا، وہ اس سمت کوئی پیش قدمی نہیں کریں گے۔ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کے بعد اس خبر کا آنا بہت سے اہم امور کی طرف اشارہ ہے۔جو بائیڈن، جو بہت جلد نئے منتخب صدر کے طور پر ذمّے داریاں سنبھال رہے ہیں، اوباما دَور میں نہ صرف نائب صدر تھے، بلکہ سینیٹ کی طاقت وَر خارجہ کمیٹی کے بھی چیئرمین رہے۔

صدر اوباما کے آٹھ سالہ دَور کا سب سے بڑا کارنامہ وہ نیوکلیئر ڈیل تھی، جو ایران کے ساتھ ہوئی۔جون 2016 ء میں ہونے والے اِس معاہدے نے ایران کو ایک مرتبہ پھر مشرقِ وسطیٰ میں اہم مقام دِلایا۔ اُسی زمانے میں ایرانی وزیرِ خارجہ کا ایک مضمون’’ فارن افیئرز‘‘ میں شایع ہوا، جس میں اُنہوں نے ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کسی دَور میں یہ مِڈل ایسٹ کا گیٹ وے تھا۔ ایران چاہتا ہے کہ اُس کی عظمتِ رفتہ کو دوبارہ تسلیم کیا جائے۔

اوباما دَور میں جان کیری، صدر حَسن روحانی اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف میں جو ہم آہنگی دیکھنے میں آئی، اس کی ایک مثال تو وہ چالیس ارب ڈالرز ہیں، جو اس معاہدے کے بعد اوباما انتظامیہ نے فوراً ایران کو واپس کردیے۔ یہ ایران کے منجمد اثاثوں میں شامل تھے اور اس عمل سے اس کی گرتی معیشت کو سہارا ملا۔ بعدازاں اس نیوکلیئر معاہدے میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس بھی شامل ہوئے،جن سے ایران کے بہت تیزی سے تجارتی روابط بڑھنے لگے۔یہ ممالک امریکا کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد بھی اس میں شامل رہے۔ ادھر صدر اوباما نے بار بار اعلان کیا کہ امریکا میں تیل نکلنے کے بعد اُن کے مُلک کی مشرقِ وسطیٰ میں دِل چسپی تقریباً ختم ہوچُکی ہے اور وہ اب مشرقی ایشیا پر اپنی توجّہ مرکوز کریں گے۔ شاید اس میں تیل کی گرتی قیمتوں کا بھی بڑا دخل رہا۔ 

شام کی خانہ جنگی 2011 ء سے جاری ہے۔پہلے تو امریکا اس کی بھرپور طور پر پُشت پناہی کرتا رہا اور صدر اسد کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا، لیکن پھر اوباما انتظامیہ نے شامی اپوزیشن کا ساتھ چھوڑ دیا اور ایران اور روس کو کُھلی چُھوٹ دے دی کہ وہ اسد کو دوبارہ مستحکم کردیں۔ چاہے اس کے لیے کتنی ہی فوجی طاقت کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔پھر ایسا ہی ہوا اور صدر اسد ہارتی بازی جیت گئے، جس میں ایران کی ہر قسم کی مدد اور روس کی فوجی کارروائیوں کا دخل ہے۔ امریکا اس پر خاموش رہا، حالاں کہ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی دسمبر2017 ء کی وہ قرار داد بھی موجود ہے، جس میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی شام میں انتخابات اور سیز فائر کی شق شامل ہے۔

سعودیہ اور دوسرے عرب ممالک شامی محاذ پر ایران کے مدّ ِمقابل تھے۔ اُس زمانے میں سعودی ، ایران برتری کی جنگ کا ذکر عام تھا۔نیوکلیئر ڈیل ہوئی، اوباما کے مشرقِ وسطیٰ چھوڑنے کے اعلانات ہوتے رہے، لیکن عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کو دونوں میں سے کسی بھی فریق(امریکا یا ایران )نے اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ماہرین کے مطابق یہیں سے وہ شروعات ہوئیں، جہاں سعودی عرب اور اسرائیل ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔اسرائیل اور ایران پہلے ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔بس یہی عرب، اسرائیل تعلقات کا نقطۂ آغاز تھا، جس کا عروج آج کل ہم سفارتی تعلقات، معاہدوں، ملاقاتوں اور ان کی تردیدوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور تشویش عرب ممالک میں عام ہے۔ وہ یہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی کی جو حد نیوکلیئر ڈیل میں مقرّر گئی تھی، ایران اُسے پھلانگ چُکا ہے اور اپنی مرضی سے یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک اپنی سرحدوں پر نیوکلیئر ایران کو برداشت کرلیں گے؟نئے امریکی صدر کو اس اَمر کا خاص طور پر خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اپنے پرانے حلیف عربوں اور ایران کے درمیان توازن کو بگڑنے نہ دے۔کسی بھی فریق کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ کسی معاہدے میں اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

ایسا بھی نہیں کہ فلسطینی رہنما کبھی اسرائیل کے وزیرِ اعظم سے نہ ملے ہوں۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان چھے سال سے زاید عرصے تک براہِ راست مذاکرات چلتے رہے۔پھر امریکی صدر، بل کلنٹن کی سرپرستی میں2000 ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا، جس میں ایک طرف فلسطین کی محاذِ آزادی کے رہنما یاسر عرفات تھے، تو دوسری طرف اسرائیلی وزیرِ اعظم تھے۔اِس سے قبل اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں نے1994 ء میں اُس معاہدے پر دست خط کیے، جس کے تحت فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اِن دنوں محمود عباس اس فلسطینی اتھارٹی کے صدر ہیں۔

کورونا وائرس کے سدّ ِباب کے لیے ویکسین تو تیار ہوگئی۔ ایک نہیں، تین تین ویکسینز کی تیاری کی خبریں آرہی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ دسمبر کے پہلے ہفتے سے امریکا اور برطانیہ میں ویکسینز کا باقاعدہ استعمال شروع کردیا جائے گا۔ چین اور روس بھی یہی کچھ کرنے جا رہے ہیں۔مختلف ممالک کی جانب سے کروڑوں کی تعداد میں ویکسین کے آرڈر دیے جاچُکے ہیں، جو جلد ہی ان ممالک کے حوالے کردی جائیں گی۔آکسفورڈ ویکسین بھی تیار ہے، جسے برطانیہ کی آسٹرا زینیکا نامی کمپنی نے بنایا ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اُس کے پاس اس ویکسین کی چالیس لاکھ ڈوزز (خوراکیں) موجود ہیں، جو منظوری کے ساتھ ہی عام استعمال میں لائی جاسکیں گی۔ خبر ہے کہ پاکستان نے بھی ویکسین کی خریداری کے لیے 80 کروڑ ڈالرز کی رقم مختص کی ہے۔نیز، یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں مزید امداد کے لیے عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں سے رجوع کیا جائے۔ کس مُلک کو کتنی جلد ویکسینز مل پائیں گی؟ 

یہ ایک اہم سوال ہے۔چوں کہ یہ ویکسینز ترقّی یافتہ اور امیر ممالک نے تیار کی ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ ان کا فائدہ پہلے اپنے عوام ہی کو پہنچائیں گے۔تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ پس ماندہ اور غریب ممالک اس سہولت سے محروم رہیں گے یا اُنھیں یہ سہولت بہت تاخیر سے میّسر آئے گی۔نہیں، ایسا نہیں ہے۔ 

خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کا ترقّی یافتہ ممالک کے حکم رانوں کو اچھی طرح سے ادراک ہے اور سب کی خواہش ہے کہ اس معاملے میں ممکنہ حد تک امتیاز برتنے سے اجتناب کیا جائے۔ایک طرح سے یہ ہم آہنگی اس انسانیت کے اتحاد کی خواہش کی عکّاس ہے، جس کا اظہار تمام ممالک کرتے ہیں، لیکن جب اپنے مفادات کی بات آتی ہے، تو سب بھول بھال کر ایک دوسرے کی تباہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ شاید دو عالمی جنگوں کی لرزا دینے والی تکالیف بھی انسان کو ابھی مُلکی یا ذاتی خود غرضی سے بلند نہیں کر پائی۔کچھ لوگ اسے حب الوطنی بھی سمجھتے ہیں۔

کووِڈ۔19 دنیا بھر میں ہر شعبۂ زندگی پر چھایا ہوا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی ویکسین آنے کے بعد اسے بُھلا دیا جائے۔ معیشت، سیاست،تجارت، تعلیم اور سب سے بڑھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی پر اس وبا نے ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، جن پر برسوں تحقیق جاری رہے گی۔ گزشتہ مہینوں میں جو تجربات حاصل ہوئے، ان سے مستقبل میں آنے والی کسی بھی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے طریقے وضع کرنے میں مدد ملے گی۔

ہمارے ہاں کورونا کے معاملے پر تحقیق کا عُنصر کم ہی رہا، بلکہ ہم تو ابھی تک اِسی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس وبا ہے بھی کہ نہیں؟طبّی ماہرین اور سائنس دانوں کے برعکس حکم ران، سیاست دان اور دوسرے غیر متعلقہ افراد اس معاملے پر زیادہ رائے زنی کرتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے مُلک میں سائنس اور تحقیق کو کیا مقام حاصل ہے اور یہ کس ماحول میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ کبھی ڈاکٹرز کو سلام پیش کیا جاتا ہے، تو دوسرے ہی لمحے اُن پر سیاست میں ملوّث ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔

اس طرح کے تماشے شاید ہی کسی اور مُلک میں ہو رہے ہوں۔تاہم، شُکر ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم سے لے کر حکومت کے دیگر کارپردازوں تک، سب اپنے بیانات اور تقاریر میں بار بار اِس وباکی سنگینی کا ذکر کر رہے ہیں۔ طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فروری کے بعد سے اب تک ہم فضول بحث مباحثوں میں پڑنے کے بجائے یک سوئی کے ساتھ اس وبا سے نبرد آزما رہتے، تو شاید اس کے خلاف ہماری تیاری اور لوگوں کا شعور بہت بلند ہوتا۔ بہرحال، اب بھی سخت احتیاط اس کوتاہی کا ازالہ کرسکتی ہے۔حال ہی میں جی۔20 یعنی دنیا کے بیس امیر ترین ممالک کی سعودی عرب کی میزبانی میں آن لائن کانفرنس ہوئی۔

اُس میں بھی کورونا ہی سے جنم لینے والے مسائل زیرِ بحث رہے۔اگر کانفرنس کا اعلامیہ دیکھا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ، امریکا، روس اور چین جیسے ممالک کی معاشی نقصانات سے نمٹنے کی تیاری بہت بہتر ہوچُکی ہے۔اجلاس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سعودی فرماں روا نے کہا کہ’’ رواں سال ہم نے کافی کچھ حاصل کیا۔ہم نے ایسی پالیسیز اختیار کیں، جن کی بدولت دنیا بھر کے ممالک بحرانی حالات سے باہر آنے لگے۔‘‘اسی اجلاس میں جرمنی کی چانسلر نے بہت ہی پُرزور انداز سے کم ترقّی یافتہ اور غریب ممالک کے لیے کورونا ویکسین کی فوری دست یابی کا کیس پیش کیا اور تمام ممالک کے سربراہان نے اُن کی تائید کی۔

ویسے یہ خبر بھی دنیا کے لیے اچھی ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پس ماندہ ممالک کو دو ارب ویکسین ڈوزز فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔نیز، ویکسین تیار کرنے والے ممالک کی کوشش ہے کہ یہ کم ازکم داموں میں مارکیٹ میں مل سکے۔ آکسفورڈ ویکسین کے متعلق اطلاع ہے کہ یہ تین پائونڈ یعنی پاکستانی چھے سو روپے میں مل سکے گی۔

تازہ ترین