• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک عورت تنگ بازو والا لباس پہنتی ہے ،جسے فولڈ کرنا ممکن نہیں، اس نے وضو کرنے کے بعد یہ لباس پہنا ،اس کے بعد اس کا وضو ٹوٹ گیا۔اب وہ گھر سے دورکسی جگہ ہے ، جہاں نماز کا وقت آجاتا ہے ،اب وہ چاہتی ہے کہ ٹوٹا ہوا وضو کرلے ،مگر وہ بازو نہیں دھوسکتی، کیونکہ موقع ایسا ہے کہ نہ قمیص اتارسکتی اور نہ آستین فولڈ کرسکتی ہے ،ایسی صورت میں کیاوہ آستین پر مسح کرکے نماز پڑھ سکتی ہے ،اگر نہیں تو نماز کا کیا کرے ؟(خالد اعوان ، امریکا)

جواب: سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عبادات بالخصوص نماز کی شرائط ،ارکان اور اداکرنے کا طریقہ شریعت میں مقرر ہے ، عبادات کو فقہ میں ’’تکلیفاتِ شرعیہ ‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے اور عاقل وبالغ مسلمان مردیا عورت کو ’’عبدِ مُکلَّف‘‘ کہاجاتاہے ،یعنی جوبالغ ہونے پر شرعی احکام کا مُکلَّف ہے ،ان کے لیے مسئول اور جوابدہ ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ:’’ اللہ کسی مُتنفّس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا،(البقرہ:286)‘‘۔اصولِ فقہ کایہ کلیہ ضرور ہے : ’’الضَّرُورۃُ تُبِیحُ الْمَحْظُورَات ‘‘یعنی ’’ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے‘‘ ، لیکن اضطرار یا ضرورت اسے کہتے ہیں ،جس سے چھٹکارا بوجوہ ممکن نہ ہو یا نہایت مشکل ہو ۔امریکہ ویورپ کا کوئی قانون یا پیشہ کسی خاتون کو اتنا چست لباس پہننے پر مجبور نہیں کرتا کہ ضرورت کے وقت وضو کے لیے آستین کو موڑا نہ جاسکے ، پس ہماری پابندِ صوم وصلوٰۃ خواتین کو چاہیے کہ وہ کم ازکم اتنی ڈھیلی قمیص پہنیں ،جس کی آستین کو وہ وضو کے وقت موڑ سکیں ۔اگر خدانخواستہ کسی کے بازو کہنیوں تک کھلے ہیں ، اگرچہ یہ شرعاً اس کے لیے منع ہے ،لیکن اگرباقاعدہ وضو کرکے نماز کے وقت چادر سے آستین سمیت پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھتی ہے ،تو نماز اداہوجائے گی ،البتہ آستین کھلا رکھنے پر گناہ گار ہوگی ۔ ہمارے فقہ کا ایک اصول ہے کہ کوئی شخص جرم ِ شرعی پر رعایت کا حقدار نہیں بنتا ،مثلاً کہے: ’’میں شراب یا ہیروئن پی کر مدہوش ہوگیاتھا اور اسی عالم میں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ‘‘،یہ عذر طلاق کے مؤثر ہونے میں قابل قبول نہیں ہوگا ۔

تازہ وضو کرنے کے لیے اعضائے وضو کا دھونا فرض ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’ اے ایمان والو!جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو (اور وضو نہ ہو ) تو اپنے منہ اور کُہنیوں تک ہاتھوں کو دھوؤ اور سروں کا مسح کرو اورٹخنوں تک پاؤںکو دھوؤ،(سورۃ المائدہ:6)‘‘۔صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمیؒ لکھتے ہیں: ’’کسی عضو کے دھونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اس عضو کے ہر حصے پر کم سے کم دو بوند پانی بہہ جائے ۔بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چپڑ لینے یا ایک آدھ بوند بہہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے ،نہ اس سے وضو یا غسل ادا ہوگا، موضع حَدَث پر تری پہنچنے کو مسح کہتے ہیں‘‘۔مزید لکھتے ہیں : ’’ جن اعضاء کا دھونا فرض ہے ،اُن پر پانی بہہ جانا شرط ہے ،(بہارِ شریعت، جلداول،ص:288)‘‘۔

ہاتھوں کا کُہنیوں سمیت دھونا فرض ہے ،مسح کافی نہیں، بلکہ سر کے مسح کے لیے بھی ضروری ہے کہ بالوں پر کیاجائے ،ٹوپی ،عمامے یا دوپٹے پر مسح جائز نہیں ۔

(جاری ہے)

تازہ ترین