• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ شام کے سلسلے میں اس وقت سفارتی اور عملی اقدامات میں تیزی آتی جارہی ہے مگر اسرائیل نے شام پر حملہ کرکے درجنوں فوجیوں کو مار دیا ہے۔ الزام یہ لگایا کہ ایران سے میزائلوں کی کھیپ حزب اللہ کیلئے جانے کے لئے اِس مقام پر رکھی گئی تھی جس پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ اس وقت شام تنہا ہے اس لئے اسرائیل کی جارحیت کا جواب نہیں دیا جاسکا۔ نہ عرب ممالک ساتھ دے رہے ہیں اور نہ ہی اسلامی ممالک۔ صرف پاکستان اور ایران اس کے ساتھ ہیں۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر کہا کہ وہ شامی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے خلاف ہیں۔ پاکستان یہ جانتا ہے کہ مغرب اور اس کے نادان مسلمان ساتھی شام کو تقسیم کرکے ایران اور پاکستان کی طرف توجہ دیں گے تاکہ ان ممالک کو بھی تقسیم کیا جاسکے۔ ایران کے لئے شام اتحادی ہے اور وہ اس کے راستے ایران کے بڑھے ہوئے ہاتھ حزب اللہ کو اسلحہ سپلائی کی جاتی ہے۔ امریکہ خود تو اسرائیل میں مداخلت کرنے سے گریز کررہا ہے اس لئے اُس کو لیبیا کے نتائج نے سبق سکھا دیا ہے جہاں اس کے سفیر کو بے دردی سے مار دیا گیا تھا تاہم وہ موجودہ شامی حکومت کے مخالفین کی امداد کررہا ہے اور ان مخالفین کے ذریعہ وہ شام میں تبدیلی لانا چاہتا ہے، خود امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ امریکہ شام میں فوجی مداخلت نہیں کرے گا مگر اس نے اسرائیل کو آزاد چھوڑ رکھا ہے اور شامی مخالفین کی امداد میں اضافہ کررہا ہے۔ بات درست ضرور ہے کہ شامی حکومت ایک ظالم حکومت ہے اور آبادی کا ایک حصہ اُس کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے عرب ممالک بشارالاسد کی شامی حکومت کے خلاف مورچہ لگائے ہوئے ہیں۔ جس میں قطر کی حکومت پیش پیش ہے۔ اس کے ساتھ ترکی اور اردن کو بھی شامی حکومت کی مخالفت اور باغیوں کی حمایت پر مجبور کیا ہوا ہے مگر یہ اسٹراٹیجک معاملہ ہے جس سے چین اور روس بھی متاثر ہوئے ہیں تو ایران اور پاکستان بھی۔ اس کے علاوہ روس امریکہ کے عالمی مداخلت کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا چاہتا ہے اور روسی کھل کر بشارالاسد کی حکومت کی اسٹراٹیجک حمایت کررہے ہیں اور چینی بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ روس کو احساس ہے کہ اس نے امریکہ کو دُنیا میں بیس برسوں سے جو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اس نے امریکہ کو ایسا بیل بنا دیا ہے جس کے سینگوں سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے اور خود روس کو بھی اس نے دیوار سے لگا دیا ہے جس نے روس کو مجبور کیا ہے کہ وہ مزاحمت کرے سو اس نے شام کے اندر امریکہ کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اگر شام پر حملہ ہوجائے تو اس میں تو وہ تو عملاً حصہ نہیں لے گا مگر انٹیلی جنس اور اسلحہ کی امداد اس نے جاری رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کامیاب نہیں ہوپا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترکی بھی سمجھنے لگا ہے کہ اگر اس نے جنگ میں حصہ لیا تو اُس کے بُرے اثرات ترکی پر پڑیں گے۔ ممکن ہے وہاں جمہوریت کی بساط ہی الٹ جائے اور سلطنت عثمانیہ کے احیاء کا خواب جو موجودہ ترکی حکومت دیکھ رہی ہے، بکھر جائے گا۔ امریکہ نے شام کے خلاف القاعدہ سے بھی ہاتھ ملا لئے ہیں جو یقیناً امریکہ کے لئے ایک نقصان دہ سودا ہوگا اگرچہ بیچ میں ایک عرب ملک ہے مگر اس سے القاعدہ مضبوط ہوگی اور وہ پھر امریکہ کو سزا کے مرحلے سے گزارے گی۔ امریکہ کے اپنے ملک میں ملٹری کلچر نے فروغ پا لیا ہے، روز دوچار امریکی خوامخواہ یا کاوٴبوائے ذہنیت کے حامل لوگوں کی دل لگی کیلئے گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ شام کے معاملات امریکہ کو بہت متاثر کریں گے اور عرب ممالک بھی اِس کی لپیٹ میں آئیں گے جو اسرائیلیوں کی خواہش ہے۔ اس وجہ سے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے روسیوں کو اِس بات پر راضی کریں کہ وہ شام کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں اور امریکی وزیرخارجہ جنھوں نے 7 مئی 2013ء کو ولادیمیرپیوٹن سے ماسکو میں ملاقات کی ہے کی خواہش ہے کہ وہ دونوں کسی ایک ایسے نکتہ کی تلاش کریں جس پر دونوں ممالک کا اتفاق ہو۔ جان کیری کا وزیرخارجہ کی حیثیت سے روس کا پہلا دورہ ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی مشترکہ نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کو بڑھائیں اور اُن معاملات میں جن میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ہیں ان کو کم کرنے کی کوشش کریں مگر شام کا معاملہ روس اور امریکہ دونوں کیلئے اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے اور اپنے دائرہ اثر کا ہے اور امریکی شہنشاہیت کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کا ہے جو خود روس کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ روس یہ چاہتا ہے کہ وہاں پرامن حکومت کی تبدیلی اس طرح سے ہو کہ روس کے مفادات کو دھچکا نہ لگے اور امریکہ اس سے مستفیض نہ ہو اور جہاں سے فارغ ہو کر امریکہ دوسرے ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی طرف یکسوئی سے توجہ دینے کی سوچ رکھتا ہے۔ وہ ممالک جو امریکہ و مغرب کی سازش کا شکار ہوسکتے ہیں ان میں ایران اور پاکستان شامل ہیں۔ یہ بات بھی روس اور چین دونوں کے مفاد میں نہیں ہے کہ امریکہ کے قدم اتنی دور تک آجائیں جو شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کو متاثر کریں۔ امریکہ کی افغانستان میں شکست کے بعد یہ پوزیشن تو نہیں ہے کہ کوئی بڑا حملہ کرسکے تاہم وہ سازشوں سے باز نہیں آئے گا اور اسی لئے پاکستان، چین اور روس نے افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد اپنی پالیسی وضع کرنے کیلئے حال ہی میں بیجنگ میں مذاکرات کئے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ شام کے معاملات انتہائی خطرناک مراحل میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ کسی عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں وہ آخری معرکہ جس کی پیش گوئی تمام مذاہب میں موجود ہے اُس کو بھی شام اور اسرائیل کی سرحد پر واقع ایک شہر سے شروع ہونا ہے۔ اس لئے امریکہ، عرب ممالک اور ترکی کو بہت احتیاط برتنا چاہئے اور ہر وقت اور ہر لمحہ اسرائیل کی پالیسیوں کو آگے نہیں بڑھانا چاہئے۔ اس لئے بھی کہ شام کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ وہاں انسانی المیہ جنم لینے کو ہے۔ 70 ہزار شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں، 75 ہزار ملک چھوڑ چکے ہیں اور ایک لاکھ سے اوپر افراد کیمپوں میں قیام پذیر ہیں۔
تازہ ترین