• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاہر القادری صاحب کی ایک رائے ،یا یوں کہہ لیجئے پیش گوئی ،تو سچ ثابت ہو گئی کہ الیکشن کمیشن نااہل امیدواروں کی چھانٹی کرنے میں بُری طرح ناکام رہا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر رہا اور صرف الیکشن کمیشن ہی کیا، ضلعی حکومتیں و میونسپل ادارے بھی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ میں خود وکیل ہونے کے باوجود دم بخود ہوں کہ جعلی ڈگری والوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کیسے مل گئی، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت جن لوگوں کو تفتیشی اداروں کی حراست میں ہونا چاہئے تھا،وہ جلسوں میں تقریریں کر رہے ہیں اور راجہ پرویز اشرف بھی انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت حاصل کر چکے ہیں۔ پھر ٹی وی اشتہارات پر حکم امتناعی جیسے اقدامات آسانی سے ہضم نہیں ہو رہے۔خیر الیکشن کمیشن کی قبل از انتخابات کارکردگی دیکھ کر سعادت حسن منٹو کا منگو تانگے والا یا د آ رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ انتخابات کے بعد بھی ہماری حالت منگو جیسی ہو۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن ان انتخابات میں کچھ تو ایسا ہے جو پہلے سے مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ ایک عام آدمی سے لیکر اعلیٰ پائے کے تجزیہ نگاروں تک، ہر کوئی ایک فرق محسوس کر رہا ہے۔میں بھی اس خوش گمانی میں مبتلا ہوں کہ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے بہتر یا کم از کم بہت بہتر انتخابات ہونے والے ہیں۔ماضی میں صرف 1970کے انتخابات کی ایک مثال ملتی ہے جن پر قریب قریب اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ کافی حد تک شفاف تھے اور ان انتخابات میں پاکستان کے رائے دہندگان کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا تھا۔ باقی انتخابات تو تمام کے تمام نظر کا دھوکہ تھے۔
لیکن طاہر القادری صاحب کے حالیہ بیان کی گونج کئی دن گزرنے کے بعد بھی سنائی دے رہی ہے کہ تبدیلی کا خواب دیکھنے والے 11مئی کی رات دھاندلی کا ماتم کر رہے ہوں گے۔اگرموجودہ انتخابات کے حوالے سے ان کے بیانات اور اسکے بعد سامنے آنے والے حالات کا سابقہ ریکارڈ دیکھاجائے تو طاہر القادری کی بات کو آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔پھر چند روز پہلے عمران خان کا اچانک لفٹ سے گر کر زخمی ہو جانا، اسکے بعد شوکت خانم ہسپتال میں ان کا ایک خصوصی کمرے میں منتقل کیا جانا اور اچانک ان کی حفاظت کی ذمہ داری کاحکومت اور خفیہ اداروں کے حوالے ہو جانا،یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا اغواء کیا جانا،نواز شریف اور عمران خان کا دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر بتایا جانا،بہت سی ایسی باتیں ہیں جن سے خدشات اور توہمات کا ایک تلاطم اٹھتا ہے لیکن ابھی تک جو صورتحال ہے یوں لگتا ہے کہ اس دفعہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔
ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں ، پیپلز پارٹی کے علاوہ، اکیلے ہی الیکشن میں جا رہی ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود ایک اہم حقیقت کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ان انتخابات میں ”فرشتوں“کا عمل دخل نہیں ہے۔پہلے تمام انتخابات جن کی عدم شفافیت کے بارے میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے ، ان میں ایک اہم حربہ پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ہوتا تھا۔پھر اس سیاسی گلدستے کو مالی امداد پہنچانا، رکاوٹ بننے والے عناصر کا ”علاج معالجہ“ کرنااور آخر میں لوکل سطح پر اپنے پروردہ سیاسی اتحاد کے امیدواروں کو اہم شخصیات کی سپورٹ کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ ، سارے وسائل بروئے کار لائے جاتے تھے۔موجودہ انتخابات میں اس طرح کی کوئی بھی کوشش بظاہر نظر نہیں آ رہی۔شایداس دفعہ نئی پرانی سیاسی قوتیں پہلی بار اپنی عوامی قوت کا درست اندازہ کرنے والی ہیں۔ آئی جے آئی، ایم ایم اے اور اس طرح کے دیگر سیاسی اتحادوں کے نتیجے میں کسی کو بھی واضح طور پر اپنی قوت کا اندازہ نہیں ہو پایاتھا۔ ہر کوئی دوسر ے کو یہ طعنہ دیتا ہوا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس کی وجہ سے جیتا ہے لیکن اب کی بار مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی ، غرض سب پر واضح ہو جائے گا کہ عوامی حمایت کے انکے دعووں میں کتنی سچائی ہے۔
موجودہ انتخابات میں ایک اور فرق بھی سامنے آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں روایتی طور پر نظر آنے والی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم زیادہ شدت سے آشکار نہیں ہے۔بائیں بازو کی پیپلز پارٹی ، دائیں بازو کی مسلم لیگ کے ایک حصے مسلم لیگ (ق) کی اتحادی ہے۔سب سے زیادہ حیران کن نتائج کی توقع تحریکِ انصاف سے کی جارہی ہے لیکن تحریکِ انصاف دائیں بازو کی جماعت ہے یا بائیں بازو کی، زیادہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ تحریکِ انصاف ابھی تک عمران خان کا دوسرا نام ہے۔ خود عمران خان ایک طرف تو اپنی عوامی تقاریر کا آغاز” اے اللہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ سے کرتے نظر آتے ہیں اور امریکی ڈرون جہاز گرانے کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ ایک روشن خیال انسان ہیں اور مغربی آزادیوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کے جلسوں میں خواتین کی موجودگی اور ترانوں پر انکے لہراتے جسموں پر مذہبی حلقوں کی بھنویں تنی ہوئی ہیں اور بہت سے کٹر قسم کے مذہبی حلقے انکے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے خلاف کھلے عام موقف کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کی جماعت میں اس وقت دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات موجود ہیں اور ان سب کا عمران خان کے پروگرام سے اتفاق ہے۔کچھ لبرل انتہا پسند انہیں طالبان کہتے ہیں جبکہ مذہبی انتہا پسند کہہ رہے ہیں کہ انہیں ووٹ دینا جائز نہیں ہے ۔ خود عمران خان کا کہنا ہے کہ رائٹ اور لیفٹ کی سیاست اب ختم ہو چکی ، اب رائٹ اور رانگ کی سیاست ہو گی۔ان انتخابات میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق زیادہ سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات میں نظر آئی جب اے این پی ،ایم کیو ایم اور پی پی پی کو ٹارگٹ کیا گیا لیکن یہ فرق بھی اب ختم ہو چکا ہے اور ہر سیاسی جماعت کی ریلیاں اور جلسے دہشت گردی کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ایک مذہبی سوچ ہمیشہ سے موجود رہی ہے جو جمہوریت کو حرام سمجھتی ہے۔ طالبان کھل کرنہ صرف اس رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے خیالات کو مسلط کرنے کیلئے ایک قسم کی غیر ریاستی قوتِ نافذہ بھی حاصل کر رکھی ہے۔طالبان کی طرف سے ان انتخابات میں ووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب بھی دی جار ہی ہے اور انتخابات والے دن خود کش حملے کے ذریعے انتخابی عمل کو ناکام بنانے کی دھمکیا ں بھی دی جارہی ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کی بیشتر اضلاع میں انتخابات کروانے کیلئے عملہ تک دستیاب نہیں، کراچی کے امن و امان کے نا مساعد حالات ایک الگ سے چیلنج ہیں لیکن ان ساری مشکلات کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستانی قوم فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور اس کے نتیجے میں اپنی پسندیدہ سیاسی قوتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے گی۔جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں ، اسلام آباد کے ڈی چوک میں عوام الناس کا ایک سمندرٹھاٹھیں مار رہا ہے جو تمام غیر جمہوری اور غیر سیاسی قوتوں کو ایک واشگاف پیغام دے رہا ہے کہ اس ملک میں حقِ حکمرانی انہی کو حاصل ہے اور وہ اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہونگے۔اب تک تمام خدشات غلط ثابت ہوئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ 11مئی کی رات اور اسکے بعد والے عرصے سے منسوب خدشات درست ثابت ہوتے ہیں یا عوام الناس کی اپنے حقِ حکمرانی کیلئے لگن غالب آتی ہے۔
تازہ ترین