• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11مئی 2013ء کا دن ووٹ کی طاقت کا دن ہے۔ اس روز عوام اپنی یہ امانت ان نمائندوں کے سپرد کرنے جا رہے ہیں جن کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی اچھی رہی ہے۔ ووٹ سے تبدیلی کا عمل ایک سست رفتار عمل کہاجاتا ہے لیکن اقوام عالم نے اسی طاقت کی مدد سے نہ صرف اپنے نظام کو بہتر کیا بلکہ ترقی کی منازل بھی طے کیں۔ انتخابات کے بعد سیاست دان عوامی مینڈیٹ کے بل پر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ حکومت ان کا حق ہے۔ لہٰذا 11مئی کا دن احتساب کا دن بھی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا مشہور قول ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ووٹ ڈالنے کا فیصلہ عوام دل سے نہیں بلکہ دماغ سے کریں۔ فیصلہ کرتے وقت اس امر کو سامنے رکھیں کہ آج سب تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کررہے ہیں لیکن اس پر بھی غور ہونا چاہئے کہ پاکستان کے جمود زدہ سیاسی ماحول میں تبدیلی اور انقلاب کی باتیں کس نے کیں۔ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ آج ہر زبان پر تبدیلی کا لفظ چڑھا ہوا ہے۔ وہ کون سی قوت ہے کہ جس نے عوام میں بیداری کی اس لہر کو پیدا کیا۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں بڑی تبدیلی کے لئے مینڈیٹ کے اندر بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔ عوام بہترین جج ہوتے ہیں اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ جس طرح جج بولتے نہیں ہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں، بالکل اسی طرح عوام 11مئی کو اپنی آواز کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعے کریں گے۔ گو کہ پاکستان کے تین صوبوں میں صورتحال تشویشناک ہے لیکن اس کے باوجود عوام کو گھر سے نکلنا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے اور آئندہ پانچ برس کے لئے ملک کی ایسی سیاسی قیادت کو منتخب کرنا ہے جو ملک کو سنگین خطرات سے باہر نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ نہ تو دعووں کی بنیاد پر اور نہ ہی خوبصورت منشور کی بنیاد پر، بلکہ ایک ایسے منشور کی بنیاد پر جو قابل عمل بھی ہو اور ایک ایسی قیادت کو جو اپنے دئیے ہوئے منشور کو رو بہ عمل بھی لا سکے منتخب کرنا ہے۔ اس قیادت کو لانا ہے جو علم سے محبت کرتی ہے۔ اس قیادت کو منتخب کرنا ہے جس نے عوام کو عزت و وقار کے ساتھ بین الاقوامی دنیا میں متعارف کروانا ہے۔ ان قوتوں کو شکست دینی ہے جو بیلٹ سے نہیں بلکہ بلٹ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔
لہٰذا امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے عوام کو مقتدر بنانے والوں کو ہی عوام اپنا مینڈیٹ دیں تاکہ وہ اس کی بنیاد پر حوصلے کے ساتھ فیصلہ کرسکیں۔ انتہا پسندانہ سوچ ہمارے معاشرے میں مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا جائزہ اس طرح سے لیا جائے کہ ہماری مذہبی اور سماجی اقدار متاثر نہ ہوں۔ 11مئی کا دن سماجی اقدار کے تحفظ کا دن ہونا چاہئے۔ ہمیں اس امر کو بھی سامنے رکھنا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے طاقت اور دہشت کا نہیں۔ ملک ا س وقت لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزر رہا ہے اور دہشت گردی بھی آہستہ آہستہ پورے ملک کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک پنجاب کے صوبائی حلقے PP-200 کے امیدوار علی حیدر گیلانی کو مسلح افراد اغوا کرکے لے گئے۔ اس لڑائی میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔ یہ ماضی قریب میں ہونے والی دہشت گردی میں ایک منفرد واقعہ ہے۔ گو کہ 11مئی کے دن کی سیکورٹی مسلح افواج نے سنبھالنی ہے لیکن جن عناصر کی طرف سے انتخابات کو سبو تاژ کرنے کی دھمکیاں آرہی ہیں، وہ روس، امریکہ ور پاکستان کی مسلح افواج سے پہلے بھی نبرد آزما رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد سوچ کبھی جھوٹے مدعیان نبوت کی شکل میں تو کبھی منکرین زکوٰة کی شکل میں خارجیوں کی شکل میں وارد ہوتی رہی ہے اور آج یہ عناصر روئے زمین پر اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ایک اور ریاست پاکستان کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ان تمام منفی قوتوں کو شکست دینے کا دن 11مئی کا ہے۔ اس دن عوام اس قومی امانت کو انتہائی سنجیدگی اور بالیدگی کے ساتھ استعمال کریں گے۔ آخر میں ایک بار پھر اس یقین کے ساتھ کہ عوام کا ووٹ نہ تو کسی موروثی خاندان کو ہوگا ، نہ کسی جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار کو ہوگا۔ یہ ووٹ صرف اور صرف امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے ہوگا۔ ایک ایسے منشور کے لئے ہوگا جو پاکستان کو خوشحال فلاحی ریاست بناسکے۔ ایک ایسی قیادت کو ہونا چاہئے جو ہمارے شاندار سماجی اور مذہبی اقدار کا تحفظ کرسکے جو قوم کے مستقبل کو تابناک بنا سکے۔ یہ کسی کی ہمدردی اور محبت کا ووٹ نہیں ہوگا کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں تو پھر آج رائے دہندگان کے سینے میں بھی دل نہیں ہوگا اور یہ عقل، دلیل اور منطق کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے اور اس بات کو ثابت کریں گے کہ ہم تبدیلی بلٹ سے نہیں بلکہ بیلٹ سے چاہتے ہیں ۔ یقیناً 11مئی کا سورج حقیقی معنوں میں غریب اور متوسط طبقے کے مقتدر ہونے کا دن ہوگا اور عوام اپنے فیصلے خود کرے گی اور جو قیادت منتخب کرے گی، وہ بنیادی طور پر عوام کی حکومت کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرے گی۔
تازہ ترین