• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے نہایت تفصیل سے بھارت کی پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے حوالے سے پہلے سے جاری کردہ شواہد پر مبنی ایک تفصیلی فائل (Dossier)پر روشنی ڈالی ہے ۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانیت سوز مظالم پر اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے تو بالتفصیل نوٹس لیا ہے اور بہت سی رپورٹیں جاری کی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے پاکستان کے حقائق نامے پہ عالمی برادری کا ردعمل کیا ہوتاہے؟ اس سے قطع نظر کہ بڑی طاقتوں کے مفادات انہیں کس حد تک اس حقائق نامے میں دیئے گئے سنگین الزامات اور حقائق پر کس طرح کے اصولی ردعمل کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ۔پاکستان کی ا نتظامیہ نے بھارت کی کراس بارڈر دہشت گردی کے الزامات کی مہم کے توڑ کے لیے اپنا جوابی مقدمہ پیش کردیا ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں جاری پراکسی جنگیں یقیناً عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث تو ہیں لیکن عالمی برادری واضح طورپر ایک نئی سرد جنگ کے دو قطبوں میں بٹتی جارہی ہے ۔ یقیناً جیسا کہ فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ پانچویں پیڑھی کی جنگ یا ہائبرڈوارفیئرمیں بھارت کا نشانہ سی پیک (CPEC)ہے ، جس کے لیے یہ اندرونی انتشارکو ہوا دے رہا ہے ۔ مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول جو RAWکے پرانے باس ہیں ، ایک دفاعی جارحانہ حکمت عملی (Defensive offense)پہ عمل پیرا ہیں جس کا مقصود جنگ کو دشمن کی ان صفوں میں لے جانا ہے جہاں سے خطرہ درپیش ہوتاہے ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ دشمن کو اپنی ہی مصیبت میں مبتلا کردو اور خود کو درپیش خطرے کو بیرونی (Externalise)بنادو۔ یعنی اپنی مشکل یا ناکامی کو ’بیرونی ہاتھ‘ کے ذمہ لگا کر بیرونی خطرے کو کائونٹر کرنے کے لیے فریق مخالف کی پچھلی اور اندرونی صفوں میں ہیجان پیدا کردو۔ اس ہائبرڈجنگ میں ہر طرح کے ذرائع استعمال ہوتے ہیں ۔ پروپیگنڈہ، سفارت کاری ، دہشت گردی یا اس کی معاونت ، سردو گرم جنگ، معاشی سبوتاژ اور معاشرتی انتشار وغیرہ ۔بھارت یہ کام کامیابی سے 1970-71ء میں کرچکا ہے جب مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی اور فوجی حل کی تلاش میں پاکستان اپنا مشرقی بازو کھوبیٹھا۔

پاکستان اور بھارت میں جاری موجودہ خوفناک محاذ آرائی اب کشمیر کے مسئلے سے کہیں آگے چلی گئی ہے اور ایک دائمی مسئلہ کشمیر کے بطن سے بڑے بڑے خلفشار پیدا ہوتے چلے گئے ہیں۔ یہ کشمکش اب 1970-71ء کی طرح تو نہیں لیکن زیادہ ہمہ گیر ہوچکی ہے ۔ امریکہ اور چین میں جاری تجارتی جنگ اب بائیڈن کے صدر بننے کے بعد اور گھمبیراور عالمی صورت اختیار کرنے جارہی ہے جس میں اب امریکہ کے ایشیا،بحرالکاہل اور نیٹو کے اتحادی بھی سرگرم عمل ہوتے جائیں گے ۔ جھگڑا پرانے سامراجی امریکی تسلط اور مغربی کثیر القومی سرمایہ دارانہ اجارہ داری نظام کوہرصورت برقرار رکھنے اور نئی ابھرتی معاشی طاقت چین اور اس کے ہمنوا ممالک میں ہے ۔ چینی صدرژی جی پنگ کا روڈ اینڈ بیلٹ کا عالمی منصوبہ جس کا کہ CPEC اہم ترین نقطہ آغازہے ، امریکہ کی سرپرستی اور بھارت کی شراکت داری کے ساتھ نشانے پہ ہے ۔ فوکس انڈوپیسفک (یہ اصلاح ہلیری کلنٹن کی ہے)کے علاقے میں ہوگا جس کا بھارت ایک بڑا کھلاڑی بنایا جارہاہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ نہ صر ف پاکستان بھارت کشیدگی میں اضافے کی صورت میں رونما ہوگا بلکہ عالمی و علاقائی سطح پر نئی صف بندیاں ہوں گی ۔ پرانے اتحادی پانسے بدلیں گے اور نئے اتحادی گلے ملیں گے ۔ یہ ایک بدلتی صورت حال ہوگی جس میں پرانی حکمت عملیاں اور قوتوں کی وابستگیاں (Alignment of forces)بدل جائیں گی ۔

پاکستان شروع سے امریکی کیمپ کا حصہ رہا اور سوویت یونین اور امریکہ کی سردجنگ سے بہرہ ور ہوتا رہا۔1970-71ء میں یہ خمار ختم ہوا لیکن جو نہی سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، پاکستان پھر سے امریکی گیم کا بڑا کھلاڑی بن گیا ۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کا ڈراپ سین ہونے کو ہے اور پاکستان کے ساتھ امریکہ کا جزوی لین دین کا تعلق (Transactional Relationship)بھی جلد یا کچھ عرصے میں تمام ہوگا ۔ ادھر مشرق وسطیٰ میں کایا پلٹ رہی ہے اور ہمارے روایتی عرب دوست امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف اتحاد ثلاثہ بنارہے ہیں اور بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی بڑھ رہی ہے ۔ اُدھر چین نے جنوب مشرقی ایشیاکی تنظیم (ASEAN)کے ساتھ آزادتجارتی بلاک بنالیا ہے جس سے بھارت باہر ہوگیا ہے ۔ اب ایک نیوجیواسٹرٹیجک گیم اور ایک نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے ۔ ماضی کی حکمت عملیوں اور جتھے بندیوں و تعلقات کی ریت سے سرنکالنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ بہت مشکل فیصلے ، بہت ہی سمجھداری سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو وہ نہیں کرنا چاہیے جو بھارت نے اپنی فالٹ لائنز کے ساتھ کیا جیسا کہ ہم جموں و کشمیر میں دیکھتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارت سمجھداری سے اور جمہوری طورپر کشمیریوں کی بیگانگی اور منشائوں کو ایڈریس کرتا، اس نے جابرانہ طریقے اور استبداد کی راہ اختیار کرتے ہوئے سارا ملبہ ’’بیرونی ہاتھ ‘‘یعنی پاکستا ن پہ ڈال دیا ہے اور پاکستان کو موقع مل گیا ہے کہ وہ بھارت کی دکھتی رگ پہ کچوکے لگاتارہے ۔ بھارت بھی پاکستان کی فالٹ لائنز میں آگ لگاتارہا ہے جیسا کہ اس نے مشرقی پاکستان میں کیا۔ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جوحربی اثاثے ہم نے افغان جنگ میں بنائے تھے ، وہ اب جہاد کی کھلی منڈی میں بکائو مال بن گئے ہیں جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان والے ، جن پر اب RAWخوب مال لگارہی ہے ۔ بلوچستان کے نوجوانوں میں پھیلی ہوئی مایوسی اور بیگانگی ومزاحمت یا پھر قبائلی علاقوں میں ابھرتی مزاحمتی آوازوں کو ریاست پاکستان ایک شفیق ماں کی طرح دست شفقت سے تشفی کرکے اور جمہوری شراکت داری سے گلے لگاسکتی ہے ۔ دشمن کو کوئی بیوقوف ہی اپنی فالٹ لائن کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے ۔ یقیناً ’بیرونی ہاتھ ‘اپنا کام دکھارہاہے لیکن اس کا مداوہ وہ نہیں جس طرح بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ کیا یا پھر مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ کیاگیا۔ وقت ہے کہ اس ہائبرڈ وار فیئرمیں ہم اپنی فالٹ لائنز کے زخموں کا مداوا کریں ، رہا CPECاس کے لیے جس سنجیدگی کی ضرورت ہے ، وہ اڑھائی برس سے نظر نہیں آ رہی ، آخر اس بارے میں ہمارا اپنا بلیو پرنٹ کیا ہے کہ یہ گیم چینجر بنے۔

تازہ ترین