• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجودہ مایوس کن سیاسی صورتحال میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز ایک بڑی سیاسی لیڈر بن کر سامنے آئی ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ اُن کے کندھوں پر، پارٹی کی سینئر قیادت کے ساتھ ساتھ خود اُن پر کرپشن کے الزامات اور مقدمات کا بوجھ ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک کی اگلی نسل کے اکثر سیاست دانوں کے کندھوں پر اِس طرح کا بوجھ ہے۔ آج کے تیسری دنیا کے ملکوں کا سب سے بڑا بحران سیاسی قیادت کا ہے کیونکہ 1960سے 1980کے عشروں تک جو سیاسی قیادت پیدا ہوئی تھی، وہ یا تو اِس دنیا میں نہیں رہی یا وہ اپنی عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکی ہے کہ سیاست میں زیادہ متحرک اور موثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ بہت کم سیاسی قائدین کو اُن کے صحیح وارث میسر آئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک بڑے سیاسی خانوادے کا اپنے آپ کو درست وارث ثابت کیا ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کو یہ ورثہ سنبھالنے میں کسی مقابلے کا سامنا نہیں تھا۔ مریم نواز نے اُن حالات میں میاں نواز شریف کی سیاسی وراثت کا اُس وقت اپنے آپ کو درست وارث ثابت کیا ہے، جب شریف خاندان میں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی طرف خود مسلم لیگ (ن) کے لوگ دیکھ رہے تھے۔ مریم نواز اگرچہ ایسے حالات میں سیاست میں آگے آئیں جب اُن کے والد، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر آزمائش کا وقت آیا، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی حالیہ تحریک میں اُنہوں نے یہ باور کرا دیا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر وہ نمایاں رہیں گی۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے انہوں نے سیاست میں اپنے موثر کردار کو منوایا۔

یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ مریم نواز اہم قومی اور سیاسی ایشوز پر جو بیانات دیتی ہیں، اُن میں جھول نہیں ہوتا ہے۔ وہ تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر بات کرتی ہیں۔ بہت سے لوگ موروثی سیاست کے مخالف ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں، جہاں سیاست، جمہوریت اور سیاسی قیادت کو پنپنے نہیں دیا گیا، موروثی سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں سیاست اور سیاسی قیادت پنپ رہی ہوتی ہے۔ وہاں موروثی سیاست از خود ختم ہو جاتی ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے بیانیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاست میں ترتیب ہوتی ہے اور ایک ریاست کار (اسٹیٹس پرسن) کی حیثیت سے سیاسی زبان سے واقفیت اسی طرح ضروری ہوتی ہے، جس طرح ایک سفارت کار کے لئے سفارت کاری کی زبان جاننا ضروری ہے۔ سیاسی فہم، تدبر اور ریاست کاری ایک سیاست دان کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اُن میں یہ باتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اُنہوں نے اپنی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پارٹی کو انتشار اور تقسیم سے بچایا۔ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں شریف خاندان کے دھڑے بنانے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں۔ خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنان ایک مرحلے پر بہت زیادہ الجھنوں کا شکار تھے اور اپنی پارٹی کے مستقبل سے مایوس تھے لیکن اب ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ اختلافات کی خبریں بھی تقریباً دم توڑ چکی ہیں۔ اُنہوں نے مکمل سیاسی بیانیہ کے ساتھ سوشل میڈیا مہم چلائی اور یہ تاثر قائم کیا کہ ملک میں جمہوریت مخالف قوتوں کے سامنے زیادہ جرات اور دلیری کے ساتھ مسلم لیگ (ن) ہی کھڑی ہے۔

پی ڈی ایم میں مختلف الخیال اور مختلف سیاسی اہداف رکھنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ مریم نواز پی ڈی ایم میں شامل ایک بڑی سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ بہت سے مراحل پر پی ڈی ایم کے اتحادیوں کے بارے میں ایسے سوالات پیدا ہوئے، جن کا مریم نواز نے سیاسی تدبر اور حوصلے سے جواب دیا اور پی ڈی ایم میں اختلافات کی قیاس آرائیاں ختم ہوئیں۔ اُنہوں نے پی ڈی ایم کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اِس وقت پی ڈی ایم میں سب سے زیادہ خواہشوں پر مبنی (Ambitious) ایجنڈا مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ اِس کے باوجود پیپلز پارٹی جے یو آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کا کوئی اختلافی معاملہ نہیں ہوا۔ اِس وقت اتحادی جماعتوں سے مسلم لیگ (ن) کے بہترین تعلقات ہیں۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ توقع سے زیادہ اچھے تعلقات ہیں۔ لاہور میں پی ڈی ایم کے آخری جلسے کی تمام تر ذمہ داریاں مریم نواز کو سونپی گئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لاہور کے اس جلسے کو بہت زیادہ کامیاب بنا سکتی ہیں۔ ویسے بھی پی ڈی ایم کے ہر جلسے میں مسلم لیگ (ن) کی شرکت قابلِ ذکر رہی۔ جلسوں کے بعد تحریک کے اگلے مرحلے میں پی ڈی ایم کو لے جانا مریم نواز کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک مزید موثر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی پارٹی کو ایک قیادت میسر آگئی ہے۔ سیاسی جماعتیں کسی بھی ملک کے لئے اداروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ سیاسی ادارے ہیں ان میں خامیاں ہوں گی۔ خامیاں تو ریاستی اداروں میں بھی ہیں۔ سیاسی اداروں کے لئے تربیت یافتہ قیادت قوم کو مایوسی سے نکال سکتی ہے۔

تازہ ترین