• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے اپنی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے، عام انتخابات 2013ء کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اس پر پاکستانی قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ اگرچہ ان انتخابات کے دوران مختلف مراحل میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوئی ہے اور انتخابی تشدد میں سیکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں لیکن یہ خون رائیگاں نہیں گیا ہے اور ان قوتوں کو شکست ہوئی ہے جن کی یہ کوشش تھی کہ انتخابات نہ ہوں۔ 11 مئی کے ان انتخابات کو پاکستان کی تاریخ میں اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ ایک جمہوری حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد ایسی نگراں حکومت کی زیرنگرانی ہوئے، جس کی تشکیل آئینی طریقے سے ہوئی اور ان انتخابات کے ذریعے دوسری جمہوریت کو اقتدار منتقل ہوا، پاکستان کے 66 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا۔ آج پاکستانی قوم یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ دنیا کی جمہوری اقوام میں شامل ہو چکی ہے۔
یہ اعزاز اور افتخار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ انتخابات کئی دیگر حوالوں سے بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ مثلاً ان انتخابات سے پہلے جو ماحول پیدا کر دیا گیا تھا وہ قبل ازیں کسی بھی عام انتخابات کے دوران نہیں دیکھا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی اجتماعات اور ریلیوں پر حملے ہوئے۔ امیدواروں، سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خوف کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی جس کے باعث پاکستان کے تین صوبوں میں انتخابی گہما گہمی ختم ہوکر رہ گئی۔ پہلی مرتبہ پاکستان پیپلزپارٹی نے کوئی بڑا انتخابی جلسہ نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو کی ہر نقل و حرکت کو خفیہ رکھا گیا حالانکہ پیپلزپارٹی انتخابات کے موقع پر سب سے زیادہ جلسے کرتی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر خونریزی بھی ہوئی۔ ملتان میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے اغواء کا انتہائی خوفناک واقعہ بھی رونما ہوا، جو حالات کی سنگینی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے اجتماعات اور ریلیوں کو بھی بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں بلوچ اکثریتی آبادی والے علاقوں میں امیدوار انتخابی مہم نہیں چلا سکے۔ امیدواروں، سیاسی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں کو بے رحمی سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام(ف)، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی اجتماعات اور دفاتر پر بھی حملے کئے گئے۔ اس طرح11 مئی کے انتخابات کو پاکستان کے انتہائی پُرتشدد انتخابات سے بھی تعبیر کیا جائے گا۔
مذکورہ صورتحال کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض قوتیں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا چاہتی تھیں اور اس وقت آپ کے سامنے جو انتخابی نتائج ہیں انہیں سامنے رکھ کر اس بات کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ بڑے پیمانے پر خونریزی اور تشدد کی کارروائیوں کو اگر روک لیا جاتا تو آج نتائج قدرے مختلف ہوتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے والی پس پردہ قوتیں حکومت سازی میں کیا کردار ادا کرتی ہیں اور وہ پاکستان کو کس طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں آئندہ ایک دو روز میں واضح ہوجائیں گی۔
11 مئی کے انتخابات کے حوالے سے مزید دو باتیں بھی نوٹ کرنے والی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن قوتوں نے انتخابات کے ماحول کو پُرتشدد بنایا، ان کے خلاف سیاسی قوتوں نے اسے ”تقدیرکا لکھا“ سمجھ کر تبدیل کر لیا اور کچھ سیاسی قوتوں نے مزاحمت سے شعوری طور پر گریز کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں اب بھی غیر مرئی طاقتور قوتوں کے آگے بے بس ہیں اور وہ صرف اس بات پر راضی ہیں کہ جس طرح کی جمہوریت ملتی ہے، وہ غنیمت ہے۔ نوٹ کرنے والی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں پُرتشدد کارروائیاں کرنے والی قوتوں نے بھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ کہنے والے کیا کہیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان نے تمام کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی حالانکہ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ ذمہ داریاں قبول کرنے سے انہیں سیاسی طور پر کتنا نقصان ہوگا۔اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کی وہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کے قتل میں طالبان کا کندھا استعمال کیا گیا جبکہ بندوق کسی اور نے چلائی۔ یہ سوال اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں آرہا ہے کہ کہیں اس مرتبہ بھی طالبان کا کندھا تو استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ طالبان نے اس خطے میں امریکہ کی مداخلت کے لئے جواز مہیا کیا ہے اور اب بھی یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جو 2014ء میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے لئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ ماضی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادی جب بھی کوئی بڑا ”گیم“ شروع کرتے تھے، اس سے پہلے پاکستان میں فوجی حکومت قائم کر دی جاتی تھی مثلاً افغانستان میں روس کے خلاف ”جہاد“ کے نام پر امریکہ نے جو جنگ شروع کی، اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کو اقتدار میں لایا گیا جبکہ نائن الیون کے واقعے سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سونپا گیا لیکن اس دفعہ عام انتخابات کو انتہائی پُرتشدد بنا کر نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ جو اس خطے میں کوئی بڑا ”گیم“ کرنے جارہا ہے، اس سے پہلے پاکستان میں فوجی حکومت قائم نہیں کی گئی بلکہ ”جمہوری انتظام“ کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔
اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس کی حکومت بنتی ہے اور کس کی حکومت نہیں بنتی بلکہ سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے داخلی اور سیاسی استحکام کا ہے۔ ملک کی حقیقی جمہوری قوتوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اب پاکستان میں جس طرح کی بھی حکومت بنے اس کو چلتے رہنا چاہئے اور پاکستان کی حقیقی خودمختاری کے حصول کے لئے پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رہنی چاہئے۔ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے ادارے ہیں جن میں بیٹھے ہوئے نمائندے بہت سے معاملات کو پُرامن انداز میں ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر اس بحث میں نہیں الجھنا چاہئے کہ کونسی سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور کونسی سیاسی قوتیں ملک وقوم کے حقیقی مفادات کے تحفظ کے لئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ پوری قوم کو ملک میں سیاسی استحکام پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ سیاسی عدم استحکام کا نقصان سب سے زیادہ سیاسی قوتوں کو ہی ہو گا۔ پاکستان کی جمہوری قوتوں اور عوام کی بے شمار قربانیوں کے بعد ہم بحیثیت قوم کم از کم اس مرحلے پر تو پہنچ گئے ہیں کہ طاقتور عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی پروردہ مقامی قوتیں مارشل لاء لگانے یا کسی فوجی کو اقتدار میں لانے سے گریز کر رہی ہیں۔ اسے پاکستان کے عوام کی سب سے بڑی فتح قرار دیا جا سکتاہے۔ جہاں تک مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے شکنجے سے کیسے نکالا جائے اور پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل پر عالمی قوتوں کے اثر انداز ہونے کے حالات کو کیسے بدلا جائے، اس مسئلے کا حل بھی یہی ہے کہ جمہوری عمل جاری رہے۔ جمہوری عمل کے جاری رہنے سے وہ سیاسی قوتیں ازخود غیر موثر ہو جائیں گی جو غیر جمہوری قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان انتخابات میں یہ سیاسی قوتیں زیادہ طاقتور ہوکر ابھری ہیں اگرچہ ان کا نام لینا مناسب نہیں ہے لیکن یہ قوتیں سیاسی عمل کی تاب نہیں لا سکیں گی اور اگلے عام انتخابات تک ان کی نام نہاد مقبولیت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ اگر ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار میں پاکستانی قوم کامیاب ہو گئی ہے تو وہ یقیناً ایک ایسا ماحول بنانے میں بھی کامیاب ہوجائے گی جس میں سیاسی اور جمہوری عمل کو پُرتشدد کارروائیوں کے ذریعہ یرغمال نہ بنایا جا سکے۔
تازہ ترین