• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قلم پکڑے کرسی پہ بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ آج یوم انتخابات ہے ، ہماری قومی زندگی کا ایک اہم دن ہے۔ ووٹ ڈالنے بھی جانا ہے اورکالم بھی لکھنا ہے۔ خیال آیا کہ پہلے کالم لکھ لوں، نہ جانے پولنگ سٹیشن پر کتنا وقت لگ جائے۔ جس دن کالم لکھنا ہوتا ہے میں اس دن کو ”یوم مشقت“ کہتا ہوں چنانچہ میرے ذہن میں آج یوم مشقت یوم انتخابات سے ٹکرا رہا تھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی ”انکل! میں اعجاز بول رہا ہوں۔ میں نے سوچا آپ کو عید مبارک کہہ لوں۔“ اعجازایک دور دراز قصبے میں رہتا ا ور کبھی کبھار فون کرتاہے۔ میں اس کے منہ سے نکلنے والے عیدمبارک کے الفاظ سن کرمخمصے اور حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ”عزیزم! ابھی عید میں تین ماہ باقی ہیں۔ کیا تم مجھے پیشگی عیدمبارک دے رہے ہو یا ملک سے باہر جارہے ہو؟“ اس نے فوراً جواب دیا ”انکل! نہ ملک سے باہر جارہا ہوں نہ پیشگی عیدمبارک کہہ رہا ہوں۔ دراصل آپ کی عید تو رمضان مبارک کے بعد اورپھر عیدالاضحی ہوتی ہے لیکن ہماری عید اس روز ہوتی ہے جس روزہمیں اس قدر آمدنی ہوجائے کہ مہینہ بھر کا ادھار ادا کرسکیں۔ انکل ہماری عید تو آج ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد بلکہ برسوں بعد آج گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے بجلی نہیں گئی۔ ورنہ تو ہمارے ہاں ہر روز بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے۔ جس دن بجلی نہ جائے، ہمارا وہ عید کا دن ہوتا ہے۔ میں آٹا پیسنے والی چکی چلاتا ہوں۔ لوگ گندم کے توڑے لا کر قطار میں رکھ جاتے ہیں اور ان کے پسنے کی باری کئی کئی دن نہیں آتی۔ اس طرح وہ بھی پڑوس سے آٹا ادھار مانگ کر گزارہ کرتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے چکی بند رہنے سے ہمارا بھی خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو بجلی کا بل بھی ادھار مانگ کر ادا کرنا پڑتاہے۔ بڑے عرصے کے بعد گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے بجلی نہیں گئی۔ ہم نے دن رات خوب مزدوری کی ہے اور اتنے کما لئے ہیں کہ ادھا بھی اتار دیں گے اور بجلی کا بل بھی ادا کردیں گے۔ اس لئے آج ہمارا یوم عید ہے۔“
میں نے مسکرا کر فون بند کردیا اور سوچنے لگا کہ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جس دن بجلی نہ جائے اس دن لوگوں کی عید ہوتی ہے۔ ہم بڑے شہروں میں رہنے والے چودہ پندرہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر گرمی کی وجہ سے تلملاتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس لوڈشیڈنگ نے کروڑوں گھروں میں فاقو ں کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ان کا مسئلہ مئی کی گرمی نہیں بلکہ ان کا مسئلہ پیٹ بھرنا ہے۔ پھر خیال آیا کہ اگر انتخابات کے موقع پر دو دن لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجلی کی کمی یا شارٹ فال نہیں یعنی ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کے وسائل موجودہیں۔ اصل مسئلہ حکومتی خزانے کی غربت ہے۔ اب حکومت نے چار ارب روپے ادا کئے تو لوڈشیڈنگ غائب ہوگئی اور بجلی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں فوراً حرکت میں آ کر بجلی پیدا کرنے لگیں۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حکومت کے پاس نجی کمپنیوں کو دینے کے لئے وسائل نہیں ہوتے چنانچہ اگر پاکستان کو ایسے اہل حکمران مل جائیں جو وسائل پیدا کرنے اوربڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
بات دور نکل گئی۔ میں کہہ رہا تھا کہ آج ہماری قومی زندگی کا ایک اہم دن ہے۔ قوم ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنوں کی طرف جا رہی ہے اور کل جب یہ کالم چھپے گا تو رزلٹ آؤٹ ہوچکا ہوگا۔ کسی کے سر پر فتح و کامرانی کا تاج ہوگا تو کسی کے چہرے پر ناکامی کی اداسی اور غم۔ یہی زندگی ہے۔ خزاں، بہار اور دھوپ، چھاؤں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک طرف سڑک سے برات کی پھولوں سے لدی کاریں گز رہی تھیں تو دوسری طرف ایل ڈی اے پلازہ کی جلتی ہوئی عمارت کے سامنے متاثرین کے خاندان صف ِ غم بچھائے بیٹھے تھے۔ رہی سیاست، اقتدار اور فتح و شکست تو یہ عارضی چیزیں ہیں۔آج ہارنے والا کل جیت کر حکمران بھی بن سکتا ہے اور آج جیتے والا کل شکست بھی کھا سکتا ہے۔ اس لئے اسے زندگی و موت کا مسئلہ بنانا، ذات اور انا کا مسئلہ بنانا اوراس پر انتقام کا رنگ چڑھانا زندگی کو بے وقار بنانے والی حرکتیں ہیں۔ عمران خان نے بھرپور انتخابی مہم چلا کر جوش و جذبہ پیدا کیا لیکن جب اس انتخابی مہم کا فیصلہ کن موڑ آیا تو وہ حادثے کا شکار ہو کر صاحب ِ فراش ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اسے جلد صحت وشفا دیں لیکن کسے اندازہ تھا کہ چند لمحے پہلے لوگوں کو گرمانے والا عمران چند لمحوں بعد خون میں لت پت وہیل چیئر پر بیٹھا ہوگا۔ دوستو! زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اگلے لمحے کا حال کسی کو معلوم نہیں جبکہ ہم سینکڑوں برسوں کی منصوبہ بندی کرتے اور خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصے سے ایک محاور نعرہ بن چکا ہے کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے چنانچہ جمہوریت کے حسن کے کھاتے میں ہر قسم کا انتقام، نفرت، محاذ آرائی اور منفی جذبات ڈال دیئے گئے ہیں۔ جمہوریت کی صحیح روح اور اس کا اصلی حسن برداشت، ہم آہنگی اور باطنی اتحادہے۔ ہم نے جمہوریت کاڈھانچہ تو قبول کرلیا ہے لیکن اس کی روح کو قبو ل نہیں کیا۔ چنانچہ ہم جمہوریت کے صحیح حسن سے محروم ہیں۔ انتخابی مہم ختم ہوچکی۔ آپ نے اپنی حد تک اپنے پسندیدہ امیدوار اور پارٹی کے لئے اپنی صلاحیتیں بھرپور انداز سے استعمال کیں۔ جوش و خروش میں مخالفوں کو لتاڑتے اور گالیاں بھی دیتے رہے۔ یوں نفرت کا کاروبار خوب چمکا، معاشرہ تقسیم ہوا، محاذ آرائی عروج پر رہی، خاندانوں اور دوستوں میں تلخیاں پیدا ہوئیں اور کچھ لوگ دست و گریباں ہوتے بھی نظر آئے۔ یہ جمہوریت کاحسن نہیں بلکہ یہ غیرپختہ پاکستانی جمہوریت کی بدصورتی ہے جس میں برداشت، ظرف اور حوصلے کی کمی ہے۔ اصولی طور پر اس بدصورتی کے اظہار کا آج آخری دن ہوناچاہئے اور ووٹ ڈالنے کے ساتھ ہی تلخیوں، محاذ آرائی اور نفرتوں کو دفن کردینا چاہئے۔ کل جب انتخابی نتائج سامنے آئیں تو جیتنے والوں اور کامیاب ہونے والوں کوظرف، وقار اور حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے فتح کا جشن منا کر نفرتوں کی آگ پر تیل نہیں ڈالنا چاہئے اور ہارنے والوں کو نہ صرف ہار قبول کرنی چاہئے بلکہ بلند حوصلگی سے اپنے مخالف کو مبارکباد بھی دینی چاہئے کہ یہی اصلی جمہوریت ہے۔ یہ انتخابات اس نقطہ نظر سے نہایت اہم اور مثبت پیش رفت ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کے انتظامات کرلئے گئے ہیں اور دھاندلی کے امکانات کو تقریباً ختم کردیا گیا ہے۔ پہلی بار ان انتخابات میں خفیہ ایجنسیاں ملوث نظر نہیں آتیں اور حکومت بھی غیر جانبداری کابھرم رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔ میری دعا ہے کہ انتخابات پرامن ہوں اور دہشت گرد اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ کل سے قوم ایک نئے دور میں داخل ہوگی۔ اس کا آغاز ہم آہنگی، اتفااق اور بھائی چارے سے ہونا چاہئے۔ نئے حکمرانوں کو بے پناہ اور خوفناک مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ”قومی اتفاق“ پہلی شرط ہے۔ جمہوریت کا اصل حسن قوم کا باطنی اتحاد ہوتاہے۔ جو جمہوریت قوم کو باطنی اتحاد نہ دے سکے وہ جمہوریت نہیں بلکہ محض جمہوری تماشا ہوتی ہے۔ اب اجازت دیجئے کہ مجھے ووٹ ڈالنے جانا ہے۔ ہم جیسوں کے لئے آج کا دن یوم انتخابات ہے جبکہ لوڈشیڈنگ کے مارے لوگوں کے لئے آج یوم عید ہے اور وہ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر روز انتخابات ہوں تاکہ بجلی آتی رہے اور کاروبار ِ زندگی چلتا رہے۔
تازہ ترین