• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم امہ کشمیر پر ہم آواز، بھارت منہ تکتا رہ گیا

گزشتہ دنوں اسلامی کانفرنس کے نائیجر کے شہر، نیامی میں منعقدہ وزرائے خارجہ اجلاس میں کشمیر پر پاکستان کے سخت اور دوٹوک مؤقف کی حمایت میں قرار داد منظور کر لی گئی۔ اِس طرح پاکستان کی وہ شکایت دُور ہوگئی، جو اُسے گزشتہ سال ہونے والے اجلاس سے ہوئی تھی۔ کشمیر پر قرارداد منظور ہونے پر بھارت نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا، جو ظاہر ہے کہ اُس کے احساسِ ناکامی کی عکّاسی کرتا ہے۔

کانفرنس کے 47ویں اجلاس میں نہ صرف کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی پذیرائی ہوئی، بلکہ اُس کی ایک اور قرار داد بھی، جو اسلامو فوبیا سے متعلق تھی، منظور کر لی گئی۔نیز، ایک اور قرارداد میں بابری مسجد کی شہادت پر بھارت کی مذمّت کی گئی۔ اجلاس نے بھارت کے متنازع شہریت بِل اور اُس پر ہونے والے احتجاج کا بھی نوٹس لیا۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کی اگلے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی درخواست بھی قبول کرلی گئی۔ 

اب او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا 48 واں اجلاس پاکستان میں ہوگا۔ ایک ساتھ اِتنی خوش خبریاں یقیناً وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کے لیے ایک بڑی کام یابی کہی جائے گی۔ جہاں کشمیر کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر ایک بڑے عالمی فورم سے اجاگر کرنے کا موقع ملا، وہیں مُلک میں یہ تاثر دینے والوں کی بھی کچھ تسلّی ہوئی ہو گی کہ’’ او آئی سی ایک غیر مؤثر تنظیم ہے۔‘‘ یہ کام یابی وزیرِ اعظم، عمران خان کے لیے بھی سکون کا باعث ہوگی، جو کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے دعوے دار ہیں اور اُنہیں اِن دنوں اپوزیشن بڑے بڑے جلسوں کی صُورت میں ٹف ٹائم دے رہی ہے۔عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اسلاموفوبیا پر خود بھی دنیا کے سامنے مسلم مؤقف پیش کریں گے۔

نیامی کانفرنس کے اعلامیے میں یہ اصولی مؤقف اختیار کیا گیا کہ کشمیر تنازعے کا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پُرامن تصفیہ ہونا چاہیے۔ جو قرار داد پہلے دن کشمیر کے حق میں منظور ہوئی، اُس میں وہ سب کچھ شامل تھا، جس کی پاکستان خواہش کرسکتا ہے۔ اُس قرارداد میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور 5اگست 2019 ء کے اقدام کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمّت کی گئی۔نیز، غیر کشمیریوں کو ریاست کی شہریت دے کر مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں پر بھی تنقید کی گئی۔

دوسرے الفاظ میں پاکستان کی قرار داد اور مؤقف کو پورے طور پر تنظیم کی قرار داد کا حصّہ بنایا گیا۔ ظاہر ہے، اِتنی بڑی کام یابی کی خوشی منانا حکومت کا حق ہے۔ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے اِس ضمن میں کہا کہ’’ بھارت کی خواہش اور کوششوں کے باوجود او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر کی گونج سُنائی دیتی رہی۔اجلاس میں قرار داد کی منظوری کشمیری عوام اور پاکستان کے اصولی مؤقف کی فتح ہے، جس پر اسلامی تعاون تنظیم کے تمام ارکان کا شُکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘ گزشتہ کانفرنس کے برعکس اِس بار جہاں تُرکی نے پاکستان کا ساتھ دیا، وہیں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے بھی قرارداد کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یو اے ای میں ہونے والے اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ، شسما سوراج کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور اُنہوں نے اجلاس میں تقریر بھی کی۔اِسی لیے شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں شرکت کو نامناسب سمجھا۔اس کے بعد مُلک میں عرب ممالک کے خلاف بہت تلخ اور تندوتیز بیانات سامنے آئے۔ خود وزیرِ خارجہ نے بھی ایک ایسا بیان دیا، جس نے سعودی عرب سے تعلقات میں تلخی پیدا کی اور مُلک میں بھی طرح طرح کی چہ مگوئیوں کا سبب بنا۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ’’ پاکستان کو او آئی سی میں موجودگی پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔‘‘ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ہمیشہ او آئی سی کے ایجنڈے پر رہا ہے۔ دو سال قبل انقرہ کے اجلاس میں بھی کشمیر پر قرار دار منظور ہوئی تھی۔

لہٰذا، ہمارے تجزیہ کاروں، اہلِ دانش اور سیاست دانوں کو کم ازکم اِس بات کا تو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے خیالات کو مُلکی پالیسی اور رائے عامّہ کا حصّہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔ کیا ہم گلے شکوے کرکے پوری مسلم دنیا سے تعلقات توڑ کر بیٹھ جائیں؟ ہم کوئی سُپر پاور ہیں، نہ ہی ایسا طاقت وَر مُلک، جس کا ہر کوئی اثر قبول کرنے پر مجبور ہو۔ہمیں اب اِس طرح کی جذباتی اور سطحی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ڈپلومیسی بہت دشوار ہوجائے گی اور ہم بہت سے محاذوں پر کام یابی حاصل نہیں کر پائیںگے۔ اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیے، مگر یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہم دنیا میں تنہا نہیں بستے۔دوسرے ممالک کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے اور اگر اختلاف کرنا بھی ہو، تو اس کے لیے مہذّب طریقے اپنائے جائیں۔

مسلم ممالک میں جس قسم کی تقسیم ہے اور ایک دوسرے سے برتری کی جنگ لڑی جا رہی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے او آئی سی جیسا ادارہ بھی مسلم دنیا کے لیے غنیمت ہے۔گلے شکوے اور شکایات کس فورم پر نہیں ہوتے۔تاہم، ایسی کانفرنسز ہی وہ اجتماعی مواقع فراہم کرتی ہیں، جہاں دوطرفہ اور بڑے تنازعات حل ہوسکتے ہیں۔آخر تُرکی، سعودی عرب اور ایران اِس سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا سکتے؟دوسروں کو تو نصیحتیں کرتے ہیں اور خود عمل سے گریزاں ہیں۔54 ممالک پر مشتمل او آئی سی، اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ فلسطین، کشمیر، مسلم اقلیتوں کے مسائل، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معاملات پر دنیا سے ڈائیلاگ ہمیشہ سے اس کے ایجنڈے کا حصّہ رہے ہیں۔

اسے بنیادی طور پر مسلم دنیا میں اتحاد و اتفاق اور باہمی تعاون کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو پچاس سال بعد بھی اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر اسے سعودی عرب، ایران،سعودی عرب، تُرکی، شام کی خانہ جنگی اور لبنان جیسے معاملات کے پس منظر میں دیکھا جائے، تو ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ہم’’ مسلم اُمّہ‘‘ کی بہت باتیں کرتے ہیں، لیکن مسلمان ممالک میں دُور دُور تک اتحاد نظر نہیں آتا۔ اُمّہ کے مسائل، عوام کی مشکلات اور پس ماندگی کا بھی رونا رویا جاتا ہے۔دوسرے ممالک کے تعصّب کا ذکر کرتے بھی نہیں تھکتے، لیکن اِس حوالے سے او آئی سی کے فورم پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔ اگر او آئی سی کے اصل مقاصد کی جگہ محض سیاسی قراردادوں ہی کو اس کی اصل منزل سمجھ لیا گیا، تو پھر مسلم عوام اِس تنظیم کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھیں گے۔

اس فورم میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں، جو کس بھی دوسرے فورم میں ہیں، بلکہ اپنی وسعت کے لحاظ سے تو یہ بہت بڑی ہے، لیکن اس کے رُکن ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، حالاں کہ یہ دورِ جدید میں ترقّی کی کلید ہے۔ذرا سا بحران آیا اور مسلم دنیا ہل کر رہ گئی۔ان حالات میں سازشی تھیوریز پیش کرنے والوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ’’ ترقّی اور خوش حالی تو ہمارے مقدّر میں ہے ہی نہیں۔ یہ تو دشمنوں کی میراث ہے۔‘‘ یا پھر ہم ماضی کے قصّے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ڈراموں کی حوصلہ افزائی اچھی بات، لیکن ہمیں خود ڈرامے کا حصّہ بننے کی بجائے حقیقت کی دنیا میں آنا چاہیے۔کوئی تنظیم ہو یا مُلک، یا کوئی فرد، سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ بغیر محنت کچھ نہیں ہوتا اور یہی قدرت کا قانون ہے۔

ایران کے سب سے نمایاں جوہری سائنس دان، محسن فخری زادہ کی ہلاکت سے متعلق متضاد خبریں سامنے آئی ہیں۔ایران نے کہا ہے کہ اُنھیں ریموٹ کنٹرول بم سے ہلاک کیا گیا۔اِس سے قبل کہا گیا تھا کہ حملہ اسرائیل نے کیا، اب کہا جا رہا ہے کہ اس میں اسرائیل کے ساتھ ایک جلاوطن ایرانی گروہ بھی شامل ہے۔اُن کی تدفین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی امور کے سربراہ نے کہا کہ’’ حملہ آور جائے واردات پر موجود نہیں تھے، اُنہوں نے حملے میں الیکٹرانک آلات استعمال کیے۔‘‘اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ یہ ایک پیچیدہ کارروائی تھی، جو مشین گن استعمال ہوئی، وہ بھی ریموٹ کنٹرولڈ تھی۔‘‘ اسی سلسلے میں ایک عرب ٹی وی کا کہنا ہے کہ’’ جو ہتھیار استعمال کیے گئے، اُنہیں مصنوعی سیّارے کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا تھا۔‘‘محسن فخری زادہ کو قومی اعزاز کے ساتھ سُپردِ خاک کیا گیا۔

اُن کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے نہ صرف روحِ رواں تھے، بلکہ اُنھیں بانی کا بھی درجہ حاصل تھا۔تمام تنصیبات اُن ہی کی نگرانی میں کام کر رہی تھیں۔ وہ دفاعی ادارے’’ ریسرچ اینڈ انویشن‘‘ کے سربراہ تھے۔ سلامتی امور کے سربراہ نے بتایا کہ’’ ایران کے خفیہ اداروں کو محسن فخری زادہ کے قتل کے منصوبے کا علم تھا، اُنہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ حملہ کہاں ہوسکتا ہے۔اِسی لیے اُن کے حفاظتی انتظامات بہتر کردیے گئے تھے، لیکن دشمن نے اُنہیں ہلاک کرنے کا ایک نیا طریقہ استعمال کیا، جو بدقسمتی سے کام یاب بھی رہا۔‘‘

ایک طرف کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں، تو دوسری طرف خوش خبریاں بھی آرہی ہیں۔ تازہ خوش خبری یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں کووِڈ۔19 سے بچائو کے لیے رواں ماہ ویکسین لگانے کا باقاعدہ آغاز ہو رہا ہے۔امریکی وزیرِ صحت نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ’’ چند روز میں یہ ویکسین عام آدمی تک پہنچا دیں گے۔‘‘امریکا نے دو ویکسین تیار کی ہیں، لیکن جو پہلے لگائی جارہی ہے ،وہ فائیزر اور بائیون ٹیک فرم کی تیار کردہ ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ ویکسین لاکھوں کی تعداد میں اسپتالوں اور پھر بازاروں میں ملنا شروع ہوجائے گی۔

نیز، دو اور ویکسینز کا بھی رواں ماہ استعمال شروع ہوجائے گا۔ان میں ایک امریکا کی موڈرنا ویکسین اور دوسری آکسفورڈ ویکسین ہے۔ان تینوں ویکسینز کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ انھیں 30، 40 ہزاروں لوگوں پر آزمائش کے بعد محفوظ اور کام یاب قرار دیا گیا ہے۔ یہ طبّی سائنس ہی نہیں، انسانیت کی بھی ایک بڑی کام یابی ہے۔ لاک ڈائون اور دیگر پابندیوں سے عوام کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایک طرف اُن پر معاشی دبائو آیا، تو دوسری جانب تنہائی کے سبب کئی طرح کے نفسیاتی مسائل بھی برداشت کرنے پڑے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ٹیکنالوجی نے اس دبائو کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

خاص طور پر انٹرنیٹ کی سہولت نے تو دنیا کو واقعی گلوبل ویلیج میں بدل دیا، جس سے لوگ دُور ہوکر بھی ایک دوسرے کے قریب رہے۔ایسا جادو تو قدیم کہانیوں کے جادوگر بھی نہیں دِکھا سکے تھے۔تاہم، سوشل میڈیا کی وسعت کا ایک نقصان افواہوں کی شکل میں ہوا۔ایسی ایسی بے تُکی اطلاعات لوگوں تک پہنچیں کہ وہ چکرا کر رہ گئے۔اُنہیں کورونا کی علامات اور علاج سے لے کر ویکسین کی تیاریوں تک کے اِس قدر قصّے کہانیاں سننے پڑے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز مشکل ہوگئی۔ایک خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت نے کورونا ویکسین کے لیے240 ارب روپے مختص کیے ہیں اور عوام کے لیے ماسک سمیت مختلف احتیاطی تدابیر لازمی قرار دی گئی ہیں، لیکن عوام نے ایسی باتوں کو پہلے سنجیدگی سے لیا، نہ اب وہ حکومت کی باتوں پر دھیان دے رہے ہیں۔ 

بازار حسبِ معمول خریداروں سے بَھرے پڑے ہیں۔ شادی ہالز بند ہیں، لیکن شادیوں میں دعوتیں اُڑائی جا رہی ہیں۔بہت کم لوگ ماسک پہننے کی زحمت گوارا کر رہے ہیں، حالاں کہ مُلک میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اگر اس تناظر میں دیکھا جائے، تو تعلیمی اداروں کی بندش ایک اچھا فیصلہ ہے، کیوں کہ نجی اور سرکاری اسکولز میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا رہی تھیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے عوامی سطح پر تین قسم کے آرا پائی جاتی ہیں۔بہت سے لوگ اسے کوئی سنجیدہ مرض ہی نہیں سمجھتے۔ ایک صاحب ماسک لگائے دکان پر بیٹھے تھے، تو آنے جانے والے اُن پر طنز کرتے رہے کہ’’ کیوں صاحب! آپ کو کچھ زیادہ کورونا ہورہا ہے؟‘‘ دوسرے وہ لوگ ہیں، جن کے خیال میں کورونا ایک بیماری تو ہے، لیکن اسے عام بیماریوں ہی کی طرح لینا چاہیے۔ 

لاک ڈائون وغیرہ فضول باتیں ہے اور تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں، جنھیں یقین ہے کہ کووِڈ۔19 ایک مہلک وائرس ہے، جس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ اگر اپنے ملک کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں، جو اسے خطرناک مرض نہیں سمجھتے۔حکومت نے پہلی لہر کے بعد اپنی کم زور پالیسی کی وجہ سے اس رویّے میں اپنا حصّہ ڈالا، جب کہ آج وہ دوسری لہر کے بعد بہت سنجیدہ ہے۔ عوام کو بار بار خبردار کر رہی ہے، جب کہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں ہیں، جو حکومت کے خلاف جلسے کر رہی ہیں۔یہ حکومت کے لیے ایک آزمائش ہے کہ اِن حالات میں لوگ حفاظت سے رہیں اور جمہوریت کو بھی نقصان نہ پہنچے۔

تازہ ترین