• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام دوست نظام کا حامل نیا پاکستان تشکیل دینے کا علمبردار عمران خان شدید زخمی ہو کر انتخابی مہم ختم ہونے سے دو روز قبل اسپتال پہنچ گیا، لیکن اسپتال داخل ہونے سے پہلے ہی عملاً خان صاحب کروڑوں ووٹرز کی سادہ ذہنی سے بنی قومی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کو انتخابی مہم سے عملی خارج کر گیا۔ یقینا اس رائے کے مخالف فقط یہ دلیل دی جائیگی کہ پیپلز پارٹی تو اپنی پانچویں باری کے پانچ سالوں میں بدترین کارکردگی کے باعث اس انجام کو پہنچی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی قومی سیاست میں عمران خان فیکٹر داخل نہ ہوتا تو کیا آج مسلم لیگ (ن) کے مقابل ایک بار پھر پیپلز پارٹی ہی نمبر دو سیاسی قوت کی حیثیت میں نہ ہوتی؟ جیسا کہ پہلے بھی وہ (ن) لیگ کے برسراقتدار آنیوالے انتخابات میں اپنی بدترین کارکردگی کے باعث دو نمبر پر ہی ہوتی تھی۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ پہلے بھٹو کے نعروں اور پھر ان سے عقیدت اور انکے خاندان کیلئے بھی اسی عقیدت سے چار عشرے تک چلنے والی پیپلز پارٹی کو نہ سابقہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کا ووٹ اپوزیشن بنا سکا اور باقیماندہ پاکستان میں بھی دائیں بازو کی قوتوں نے کئی بار مل کر زور لگایا۔ اسٹیبلشمنٹ تنہا بھی اور بھٹو مخالف قوتوں کو جمع کر کے، ان کی بھرپور معاونت کر کے بھی پیپلز پارٹی کو تیسرے نمبر پر نہ لے جا سکی۔ یہ ضرور کیا کہ اس کے مقابل جیسے تیسے کر کے ایک سیاسی طاقت اسکے مقابل کھڑی ضرور کر دی جو انتخابی سیاست میں اس کے لئے چیلنج بنتی بنتی اپنی فن کاریوں سے بھی کچھ سچ مچ کی عوامی طاقت بن گئی۔
جب دونوں بڑی سیاسی قوتوں کے عوام سے فاصلے بڑھنے لگے، نظریاتی سیاست سے دوری دونوں کی قدر مشترک بننے لگی اور دونوں ملک میں دہرے قانون سے حکمرانی کرنے لگے تو ان کے جداگانہ تشخص میں بھی کمی آتی گئی اور اب تو عوام کو یہ ایک جیسی لگنے لگیں۔ (ن) لیگ کے دوسرے اقتدار میں عوام کے ایک بڑے حصے کی یہ رائے بننے لگی کہ جمہوری اقدار سے دوری، خاندانی سیاست کی پرورش، کرپشن، ٹیکس چوری، قرض خوری اور ایک سے بڑھ کر ایک نا اہل پارلیمینٹ میں لے جانے اور خوشامدیوں کے زور پر پارٹی دائرہ وسیع کرنے میں یہ ایک دوسرے سے قریب تر ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس عوام دشمن ایجنڈے میں کون دو قدم آگے اور کون دو قدم پیچھے ہے۔ واضح رہے کہ ایٹمی دھماکوں اور موٹروے کی تکمیل اور واجپائی کی لاہور آمد کے ایک ڈیڑھ سال بعد ہی جب خلاف آئین فوجی حکومت قائم ہوئی تو صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں، پاکستان میں خلق خدا خوش تھی۔ میاں صاحب کے جیل جانے اور ان سے بدسلوکی پر بھی ان کے لئے ہمدردی کی وہ لہر نہیں پیدا ہوئی جو بھٹو کا تختہ الٹتے ہی کم از کم پیپلز پارٹی میں تو بہت بلند درجے پر پیدا ہوئی تھی۔ (ن) لیگ کی قیادت جب تک اس تلخ حقیقت کا تجربہ نہیں کرے گی یا اس کے خوشامدی اور حواری اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے، وہ صحیح معنوں میں اصلاح نہیں کر پائیگی۔ نہیں کریگی تو نہیں کہہ سکتے کہ پیپلز پارٹی کی طرح وہ حصول اقتدار کیلئے انتخابی عمل میں چوٹی کی دو میں سے ایک پارٹی کی حیثیت سے وہ بھی پی پی کی طرح محروم ہو جائے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ عمران خان نے دو جماعتی انتخابی سیاست کو ڈسٹرب نہیں کیا۔ اس نے روایتی دو میں سے ایک کو پیچھے دھکیل کر اپنی جگہ بنا لی۔ اس سے 1988ء سے چلتے اسٹیٹس کو کی قومی سیاست چٹخ گئی۔ 1997ء کے انتخابات میں ملک گیر شکست سے دو چار ہونے کے بعد عمران خان نے ایک لو پروفائل لیکن پُرعزم نو وارد اور اناڑی سیاست دان ہونے کے باوجود اپنی محدود سیاسی ابلاغ میں جس طرح حکومتی کرپشن، موروثی سیاست اور عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کیلئے آواز اٹھائی، اس نے بالآخر اسے پاکستانی قومی سیاست کے ایجنڈے میں نمایاں جگہ دلا دی۔ اخباری بیانات اور انٹرویوز کے ریکارڈ سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ عمران نے جسٹس افتخار کی تاریخ ساز No اوران کی حمایت میں وکلاء تحریک سے بہت پہلے آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی بات بڑی شدت سے کی۔ اس وقت جب اعلیٰ عدلیہ کا اعتبار زمین سے لگ گیا تھا اور لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ مرضی کا انصاف حاصل کرنا ہے تو ”وکیل کیا کرنا سیدھا جج ہی کر لو“۔ عدالتی زوال میں آج کی انتخابی مہم میں قیوم۔ڈوگر کورٹس کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی۔ عمران انتخابی جلسے میں زخمی ہونے سے پہلے ہی قومی ”سیاست کے اناڑی کھلاڑی“ کے طنزیہ تیروں سے زخمی تھا، لیکن یہ زخم کھا کر اس نے پاکستانی قومی سیاست کی یہ عظیم خدمت کی ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کو اسٹیٹس کو کی سیاست میں لتھڑنے سے نہ صرف بچا لیا بلکہ اس کی صفائی پر لگا دیا۔ یہ کام نہ پاکستان کی حفاظت پر مامور مقدس سیاسی فرشتوں کے بس میں تھا، نہ دیندار سیاسی جماعتیں دنیا داری کے اس اہم تقاضے کو پورا کرنے پر قادر تھیں۔ نہ یہ کٹھن کام پاکستان کی نظریاتی صفوں کے نیشنلسٹ مجاہدین کر پائے۔ اب عمران بلّے سے شیر کا شکار کر پائے یا نہ پائے لیکن اس نے نوجوان نسل کے لئے قومی سیاست کی ایک نئی اور شدت سے مطلوب راہ کا تعین کر کے نئے پاکستان اور اسکے مستقل کی بنیاد رکھ دی ہے، جس پر اقبال اور قائد کے خواب اور مقصد تحریک پاکستان کے مطابق عوام الناس کی فلاح کا خواب بھی پورا ہو گا اور دنیا میں تسلیم کئے جانے والی مستحکم اور محترم اسلامی جمہوریہ پاکستان تعمیر ہو گی اور جب یہ ہو گا اس کے پس منظر میں عمران خان کا یقین محکم ہو گا جو آنے والی نسل کو وہ فضا اور ماحول مہیا کریگا جس میں فاتح عالم بننے کا خواب دیکھ سکیں گے۔ یاد رکھیں کہ تخیل سے بھی پار (Beyond Imagine) خواب سجانے والے افراد اور قومیں ہی جہاد زندگی میں اپنی جگہ نمایاں بناتی ہیں۔
تازہ ترین