• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوگرمافیا میں ملوث ایک اہم کردار کے متعلق سنتے تھے کہ ان کی پاکستان واپسی پر دھماکا ہوگا،ایک کہاوت سنائی جاتی تھی کہ ایک شخص کی ایک صاحبزادی کی شادی کاشتکار اور دوسری کی کمہارسےہوئی تھی۔یہ صاحب ایک روز خیریت معلوم کرنے جب پہلی صاحبزادی کے گھر گئے تو اُس نےکہا کہ فصل کاشت کی ہےدعاکریں کہ بارش ہوجائے، دوسری کااس کے برعکس کہنا یہ تھا کہ بابا جان دعاکریں کہ بارش نہ ہو وگرنہ مٹی کی ہماری اشیاء مٹی ہوجائیں گی،اب یہ صاحب دعا بارش کی کرتے ہیں تو کمہار بیٹی کے گھرتباہی ،نہ ہونے کی دعاکرتے ہیں توکاشتکار بیٹی کے گھرمیں غم ویاس ۔

غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را

بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

جی ہاں !یہی کہا جارہاتھا کہ شوگرودیگر مہنگائی ایشوز میں ملوث صاحب کیخلاف لندن واپسی پر کارروائی ہوتی ہے تو پھر موصوف اسمبلی کے اندرتبدیلی کی صورت میں اپوزیشن کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں،اگر کارروائی نہیں ہوتی تو پی ڈی ایم اتنا غل غپاڑہ کرلیگی کہ حکومت کیلئے سامنا کرنا مشکل ہوجائے گا،گویا ہر دو صورت میں اُس ’’اباــ‘‘ کی طرح حکومت کا ہی نقصان ہوجانے کا احتمال تھا،لیکن وائے حسرت ناتمام کہ بقول آتش ؔ:

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

پی ڈی ایم تحریک کے سبب جن حالات کا حکومت کو سامنا ہے ،ایسے میں وہ ایک بھی رکن قومی اسمبلی کی ناراضی کی متحمل نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ جہانگیر ترین یا خسروبختیار جیسے ایسے کھلاڑیوں کی،جو اراکین کی ٹیم بھی رکھتے ہیں!!دوسری طرف پی ڈی ایم کامعاملہ بھی مختلف نہیں، پاکستانی پارلیمانی تاریخ اس قدر داغدارہےکہ کوتاہ نظر بھی دیکھ سکتاہےکہ کیونکر پی ڈی ایم نےمہنگائی مافیاکیخلاف اپنی دراز زبان کو قابو میں رکھاہے۔حکومت کی طرح اپوزیشن میں شامل دو بڑی جماعتیں بھی تاک لگائے بیٹھی ہیں کہ حکومت کا کھیل تو بالآخر خراب ہوناہی ہے ،اگر حکومت مافیا کو سزا نہ بھی دے،توکل کو حکومت مخالف فضا سازگار دیکھتے ہی ایسی تما م مافیا زکو اقتدارکی لائن میں لگی جماعتوں ہی کی طرف رُخ کرناہے ،چنانچہ کیونکر ان آزمودہ الیکٹ ایبلزسے تعلقات خراب کردئیے جائیں،ان کی مخالفت میں دوچار باتیں تو سیاسی عیاشی ہے اورکچھ نہیں۔ہم نے ایک کالم میں پی ڈی ایم کا میثاق روایتی یا انقلابی میں یہی عرض کیا تھاکہ ’’پی ڈی ایم کے حالیہ میثاق پر نظر ڈالتے ہیں تو اِس میں تمام نکات گھسے پٹے ہیں اور اُن پر عمل کیلئے کسی میکانزم کے نہ ہونے سے اُن کا حشر بھی میثاقِ جمہوریت جیسا ہونے کے امکان کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پی ڈی ایم کے 12؍نکات میں جو مشمولات ہیں اُن تمام کو محض دو نکات میں سمویا جا سکتا ہے۔ اول، جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرنا۔ دوئم، آئین پر من و عن عمل کرنا۔ پارلیمنٹ کی خودمختاری سے لیکر اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے تک تمام نکات پر اُس وقت ہی عمل درآمد ممکن ہے جب جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرتے ہوئے آئین کو راہ نما بنا لیا جائے‘‘۔ اسطرح ناگزیریہ بھی ہے کہ جمہوریت کو رسہ گیروں سے واگزار کرانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ، اسٹریٹ پاور کے استعمال کے غلط رحجان اور ترقیاتی فنڈز کو ذاتی، گروہی و جماعتی مفاد کیلئے استعمال کرنے کی قبیح روایت کے سدِباب کیلئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے، نیز آئین کی پاسداری کیلئے پی ڈی ایم ایک ایسے میکانزم پر متفق ہو جائے جس سے انحراف ممکن نہ رہے‘‘حیرانی ہوتی ہے کہ پی ڈی ایم نے بزعم خود ملکی سیاست میں تطہیر کیلئے جو میثاق دیا ہے اُس میں ایسے ضمیر فروش جو پارلیمانی سیاست پربدنماداغ ہیں او ر جو ’’لوٹے‘‘ کی بجائے اب الیکٹ ایبلز کہلائے جانے لگے ہیں،اُن کے سدباب سے متعلق ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا۔ ملکی سیاست اس وقت میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نوازکے گرد رقصاں ہے،ایسے میں انقلابی اقدامات کی بجائے روایتی سیاست سے کسی ذات کا تو بھلا ہوسکتا ہے، عوام کا نہیں۔پاکستانی سیاست ہمیشہ ہواکے رخ پر چلتی رہی ہے،اس رخ کا تعین امریکا بہادر وبرادرملک اندورنی قوتوں کی اشیرباد سےکرتے رہے ہیں،شاید یہ پہلی مرتبہ ہےکہ ایک بڑے مقصدکیلئے اسٹیج بنایاگیا ہے ،اس کے سامنے جمع عوام کسی اور کی دلچسپی کے مرہونِ منت یہاں جمع نہیں ہوئے ہیں بلکہ اُنہیں 71سال کے نظام کہن سے نجات کی آرزو کھینچ لائی ہے۔خدانہ کرے کہ کل کو یہی عوام حسب ِروایت یہ کہتے ہوئے سنے جائیں کہ پی ڈی ایم کے اسٹیج سے بھی اگر ماضی کی طرح تماشے ہی دکھائے جانے تھے تو پھر اس سے تو پہلے والاکفن چورہی بہترتھا۔

تازہ ترین