• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق کہ ہم کرونا کی وجہ سے کاروبار بند نہیں کریں گے۔ کیونکہ اس سے زندگی کا پیہہ چلتا ہے۔ لیکن کیا زندگی کا پیہہ صرف اور صرف کاروبار چلنے سے ہوتا ہے۔ کیا کاروبار خود بخود چلتے ہیں؟ یا ان کا بھی انحصار اور دوسری چیزوں پہ ہوتا ہے ؟ جس میں سب سے اہم human capital ہیومن کیپٹل ہے۔کیونکہ کسی بھی کاروبار یا بزنس کی کامیابی کے چند بنیادی اجزا/ انگریڈینٹس ingredients ہیں. جن کو پورا کرنے کے لئے لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے. وہ بھی وہ لوگ لوگ جو پڑھے لکھے ہوں اور سوجھ بوجھ رکھتے ہوں. کیونکہ سب سے پہلے بزنس شروع کرنے سے پہلے جس چیز (جنس/ goods) یا خدمت/ سروس کا کاروبار کرنا ہے اس کی اجازت لی جاتی ہے، یعنی باقاعدہ لائسنس حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بغیر پڑھا لکھا شخص کیا یہ کام اکیلے کرسکتا ہے یا اسے کسی اور کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے جو کے اس کام کے پیسے لیتا ہے۔ یوں تعلیم نا ہونے کی وجہ سے کاروباری شخص کو اضافی خرچ اٹھانا پڑتا ہے ۔دوسرے نمبر پہ آتا ہے اس چیز یا سروس کی مارکیٹنگ اور پروموشن۔ کیا یہ کام وہ شخص خود کرسکتا ہے اور اگر وہ کسی کی خدمات لیتا ہے تو ان کو مانیٹر وہ کیسے کرئے گا کہ آیا کام درست سمت میں ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ کاروبار کرنے کے لئے تیسرے نمبر پہ ضروری ہے کہ بزنس مین یہ دیکھے کہ وہ جن افراد یا علاقے کے لوگوں کے لئے وہ جنس، یا خدمت (goods or sevice) کا کاروبار کررہا ہے۔ ان کا مزاج کیسا ہے۔ وہ کیسے برتاو (behave) کرتے ہیں۔ یعنی وہاں کے لوگوں کی پوری demographics کو سمجھنا۔پھر چوتھے نمبر پہ آتا ہے بزنس مین کے اندر کا ٹیلنٹ۔ کبھی یہ ٹیلنٹ/ صلاحیت(فن) قدرتی ہوتا ہے اور کبھی سیکھ کر حاصل ہوتا ہے۔ لیکن آج کل کے تکنیکی دور میں تعلیم اور خاص طور پر مخصوص تعلیم کے بغیر کاروبار میں کامیابی ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح مالی اختیار (financial control) کامیاب کاروبار کا پانچواں جزو (ingredient ) ہے۔ کیا مالی معاملات اتنے آسان ہوتے ہیں کہ ایک بغیر پڑھا لکھا شخص اس کو باآسانی دیکھ سکے۔ یقینا اس کو کسی اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہوگی۔ لیکن وہ اکاؤنٹنٹ کتنی ایمانداری سے کام کررہا ہے یا نہیں اس چیز کو دیکھنے کے لیے بزنس مین کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ چھٹا اور آخری ضروری جزو ہے جذبہ یا جوش / passion ۔ بزنس مین اس کاروبار کو کرنے میں کتنا جذبہ رکھتا ہے کیونکہ ہر کاروبار شروع ہوتے ہی کامیابی کی عروج پہ نہیں پہنچتا ۔ بلکہ بڑے جذبے، جوش، مستقل مزاجی، برداشت، تحمل اور حوصلے سے ہی ممکن ہے۔لیکن ان سارے جزیات (ingredients) کی موجودگی تعلیم سے ہی ممکن ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں عام طور پہ اور ہماری قیادت کے ہاں خاص طور پر کاروبار کا تعلیم نہیں جوڑا جاتا۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں تو ہمارا یقین ہے کہ رزق قدرت خود فراہم کرئے گی۔ اس کے لئے تعلیم کی کوئی شرط نہیں۔ ہاں اگر بچے مدرسے / اسکول ، کالج ، یونیورسٹی/ جامعہ جا کر تعلیم حاصل کریں گے تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔کورونا ان پر حملہ کردے گا۔ جبکہ بقیہ کاروبار زندگی پر وہ حملہ آور نہیں ہوگا کیونکہ ان سے زندگی کو پیہہ چلتا ہے۔ جناب والا جن ملکوں نے ترقی کی ان ملکوں نے اپنی نسل کو ہر ممکن طریقے سے پڑھانے کی کوشش کی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے رہے۔ لیکن ہم نے ہر چیز میں ان کی نقالی کرنے کی کوشش کی سوائے تعلیم اور حفظان صحت کے شعبوں کے۔ اب سوال اٹھے گا کہ تعلیم کو روکا تو نہیں گیا۔ کیا آن لائن کلاسز کی ہر جگہ اجازت نہیں ہے۔ تو پھر کیوں الزام لگایا جا رہا ہے کہ تعلیم پر پابندی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی بھی اہم مسئلہ پر بات کرنی ہوتی ہے تو کیوں اجلاس بلایا جاتا ہے؟ آن لائن مذکرات کیوں نہیں ہوتے؟ یقینا آن لائن میں کافی مشکلات /ڈسٹربنسز آتی ہیں۔ اسی لئے اہم اجلاس فزیکل بلائے جاتے ہیں ۔تو تعلیم کیا اہم ضرورت نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں غریب لوگ نہیں، کیا ہر شخص کی جدید ٹیکنالوجی تک پہنچ ہے؟ یقینا ہمارے ہاں غریب لوگ بھی ہیں اور ان کی جدید ٹیکنالوجی تک پہنچ بھی نہیں ہے ۔ جتنی کم آمدنی والے لوگ ہیں عموما ان کے یہاں بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں ایسے میں اگر گھر میں دو فون ہوں اور بچے چار تو کیا سب بچے بیک وقت آن لائن کلاسس لے سکتے ہیں؟ جبکہ ایک فون والد اپنے ساتھ نوکری پر بھی لے جاتے ہوں۔ دوسرے انٹرنیٹ سروس کی فراہمی اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی ان غریبوں کو کتنی حاصل ہے؟ ایسے میں آن لائن کلاسوں کی اجازت ایک مذاق سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کورونا کی وجہ جن شعبوں پہ پابندی یا سختی کرتی ہے جو شعبے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں حکومت ان کے گھٹنے ٹیک دیتی ہے ، چاہے وہ بازار ہوں، بیوٹی پارلرز ہوں، شادی ہالز یا بینکوئیٹز ہوں، اور یا سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے جلسے ہوں۔ لیکن تعلیم کا شعبہ وہ سب سے غیر اہم شعبہ جس کی بندش پہ کوئی فکر نہیں۔ الٹا طلباء نے ان کی بندش پہ جس خوشی کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ان کی خوشیوں کی تشہیر کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کیا کسی باشعور معاشرہ میں ایسا ممکن ہیں؟ افسوس ہم کہاں جارہے ہیں ۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین