• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس نے وطن عزیز کی ایک معروف یونیورسٹی سے ایم بی اے کر رکھا تھا اور پاس آؤٹ ہوتے ہی اچھی خاصی نوکری بھی مل گئی تھی مگر خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہی، جو بالآخر رنگ لائی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے مقامی آفس میں جونیئر ایگزیکٹو کے طور پر تقرر ہوگیا۔ جہاں تنخواہ بھی اچھی تھی، حالات کار بھی عمدہ اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی، مگر گھر سے فاصلہ بڑھ گیا تھا۔ آنے جانے میں دشواری محسوس ہوئی تو ایک برانڈ نیو 800CC گاڑی قسطوں پر نکلوا لی اور یوں زندگی آسودگی کے ساتھ رواں دواں ہو گئی۔ نیا دفتر بھی خوب راس آیا، محنتی، مودب خوش اخلاق اور مخلص نوجوان کو کون اگنور کر سکتا تھا؟ چوکیدار سے لیکر چیف ایگزیکٹو تک کیلئے محترم ٹھہرا۔ اس دن اسے دفتر پہنچنے کی جلدی تھی، ایک اہم میٹنگ میں اسے اپنے کیریئر کی پہلی پریذنٹیشن دینا تھی جس کے لئے وہ تیار بھی تھا اور پُرجوش بھی، صورتحال کچھ ایسی ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہی اس نوجوان کے ساتھ بھی ہوا۔ جی ایچ کیو کیلئے مخصوص اسلام آباد کے E/10 سیکٹر کے سامنے سے گزرتی مارگلہ روڈ کے ایک Curve پر گاڑی بے قابو ہو کر الٹ گئی اور اسٹیئرنگ کے پیچھے نوجوان زخمی ہوگیا جو اس قدر کاری تھی کہ چند منٹوں کی مسافت پر واقع پمز تک پہنچنے کی مہلت بھی نہ دی۔ زندگی اور اس کی امنگوں سے بھرپور نوجوان زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔
جس جگہ یہ حادثہ ہوا، وہاں برگد کے ایک درخت کو بچانے کیلئے تیر کی طرح سیدھی آتی ہوئی دو رویہ سڑک کو شارپ بینڈ دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کئی جان لیوا حادثات ہو چکے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب یہ سڑک بن رہی تھی تو برگد کے اس قدیم درخت کو بچانے کے لئے ماحولیات کے چند متوالوں نے پرزور تحریک چلائی تھی۔ سی ڈی اے سڑک کو سیدھا رکھنے پر مصر تھا مگر بلاوجہ کے احتجاج، دھرنوں اور شور شرابے سے تنگ آکر ٹیڑھے پن پر مجبور ہو گیا تھا۔ یوں بدوضع سا درخت تو بچ گیا مگر انسانی جانوں کے ضیاع کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ درختوں، مسجدوں، مزاروں اور جانے کیا کیا کچھ بچانے کے نام پر قومی شاہرات کو ٹیڑھا میڑھا کرنے کا سلسلہ فراخ دلی کے ساتھ جاری ہے۔ اسلام آباد کی مارگلہ روڈ، کشمیر ہائی وے، جی ٹی روڈ اور نہ جانے کہاں کہاں کسی بہانے کئی پل صراط اور خوفناک موڑ پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ عقیدت اپنی جگہ، مگر انسانی جان کی حرمت کے سامنے سب ہیچ ہے اور پھر اس حوالے سے جدید ٹیکنالوجی نے تو کام بے حد آسان کر دیا ہے ۔ راولپنڈی کے مری روڈ پر فیض آباد سے ذرا آگے سڑک کے عین کنارے پولٹری ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پاس بہت خوبصورت مسجد ہوا کرتی تھی، سڑک کشادہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسجد کو وہاں سے ہٹا کر قریب ہی موجود سرکاری زمین پر پہلے سے بھی بہتر طور پر تعمیر کردیا گیا اور ہر کوئی خوش اور مطمئن تھا۔ یہی حال قبروں کا ہے، قبر کو بچانے کیلئے سڑک کو موڑنے سے بہتر ہے کہ قبر کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیں۔ جدید مشینری کی مدد سے قبر اور اردگرد کی زمین کا پورا ٹکڑا اٹھا کر بآسانی دوسری جگہ رکھا جا سکتا ہے۔ قبروں کی منتقلی تو صاحب مزار کے اشارہ پر بھی ہوتی رہی، بے شمار داستانیں موجود ہیں کہ سیلاب آگیا یا دریا نے رخ بدل لیا تو صاحب مزار نے خود کسی عقیدت مند کو اشارہ دیا کہ اسے وہاں سے نکال کر کسی اور جگہ دفن کر دیا جائے۔ درختوں کی دوسری جگہ منتقلی کی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے مگر ایک خاص عمر اور سائز کی حد تک۔ بڑے درخت اگر انسانی زندگیوں کے لئے خطرہ بنیں تو انہیں کاٹ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اس خطہ میں برگد اور پیپل کے درختوں کی ایک تاریخ اور روایت موجود ہے، ہندوؤں، سکھوں اور بودھوں نے انہیں مقدس جانا اور ان کی کاشت اور پرورش عبادت سمجھ کر کی۔ ہندوستان میں آج بھی آپ کو ہربستی میں برگد اور پیپل کے تن آور درخت مل جائیں گے۔ آزادی کے برسوں بعد تک ہمارے ہاں بھی یہ سلسلہ موجود تھا مگر ہم نے ایک ایک کرکے سب چولہوں میں پھونک دیئے اور اب ضرورتاً بھی کوئی ایسا درخت راہ سے ہٹانا پڑے تو بلاوجہ کا ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں اور انوائرنمنٹ گرین ایفیکٹ کے چیمپئن ہونے کا پاکھنڈ کرتے ہیں جبکہ درخت لگانے اور پالنے کے حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ سب کے سامنے ہے سال میں دو بار شجر کاری کی مہم ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ 65 برسوں سے ہر سال کروڑوں پودے بورہے ہیں اگر دسواں حصہ بھی پروان چڑھ گئے ہوتے تو آج پاکستان کے گھنے جنگلوں سے گزرنا دشوار ہوتا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا شمار بدترین درخت دشمن ممالک میں ہوتا ہے۔ مجھے شاہرات کے مختلف محکموں سے درخواست بھی کرنا ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں سڑکوں کی الاٹمنٹ کو ری وزٹ کریں جہاں کہیں کسی بھی وجہ سے غیر ضروری ٹیڑھ میڑھ کی گئی ہے اسے دور کریں تاکہ قومی شاہراہوں کو محفوظ تر بنایا جا سکے۔
اس حوالے سے ترقی یافتہ دنیا کے ریت و رواج کیا ہیں؟ ذہن میں جرمنی کی مثال آرہی ہے کہ موٹر وے قسم کی جدید شاہراہوں کا تصور دنیا کو سب سے پہلے جرمنی نے ہی دیا تھا اور اس کشادہ اور ہائی اسپیڈ سڑک کو آٹوبھان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ گو منصوبہ بندی 1920ء کی دہائی میں شروع ہو چکی تھی مگر جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز1933ء میں ہٹلر کے حکم پر ہوا۔ محکمہ کی سربراہی فرز ٹاٹ (Fritz Todt) نامی انجینئر کو سونپی گئی ابتدا فرینکفرٹ اور ڈارم سٹٹ (Darmstadt) کے درمیان آٹو بھان کے 108 کلو میٹر طویل ٹکڑے سے کی گئی۔ الائنمنٹ پر کام شروع ہوا تو انکشاف ہوا کہ ہزار برس قدیم ایک نہایت مقدس چرچ عین آٹو بھان کی راہ میں پڑ رہا ہے مختلف حلقوں کی طرف سے تجویز آئی کہ شاہراہ کو ذرا سا خم دے کر گرجا کو بچا لیا جائے مگر چیف انجینئر فرز نہیں مانا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ گرجا کو یہاں سے اٹھا کر 100 گز دور پھر سے تعمیر کریں گے مگر شاہراہ کی گزر گاہ تبدیل نہیں ہوگی اور پھر گرجا کی ایک ایک اینٹ اور پتھر نہایت احتیاط کے ساتھ نئی جگہ پر لے جائی گئی اور مہینہ بھر میں ہو بہو بلڈنگ اس مہارت سے نئی جگہ پر کھڑی کر دی گئی کہ وہاں سے گزرنے والے اجنبی تو رہے ایک طرف، مقامیوں کو بھی اس تبدیلی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔
فرینکفرٹ اور ڈارم سٹٹ کے درمیان 108 کلو میٹر طویل آٹو بھان کا یہ ٹکڑا 1935ء میں ٹریفک کے لئے کھولا گیا تو حد رفتار متعین نہیں کی گئی تھی جس سے مرسیڈیز بینز اور آٹو یونین والوں کی تو موج ہو گئی، آئے دن ریکارڈ بننے اور ٹوٹنے لگے حتیٰ کہ فروری 1938ء میں مشہور جرمن کار ریسر برن روز میئر حادثہ میں جان کی بازی ہار گیا اور اس وقت اس کی گاڑی432 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ ضعیف العقیدہ لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں تب بعض جرمن حلقوں میں بھی کھسر پھسر ہوئی تھی کہ حادثہ گرجا گھر کی بے حرمتی کی وجہ سے ہوا ہے اور پروجیکٹ انچارج فرز ٹاٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب بکواس ہے گرجا گھر والی بات ہوتی تو آفت مجھ پر آتی، برن روز میئر اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے ہلاک ہوا کیونکہ وہ بھول گیا تھا کہ وہ جہاز نہیں اڑا رہا، گاڑی بھگا رہا ہے۔
تازہ ترین