• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کے بعد وہ سورج طلوع ہوچکا ہے جس کا مژدہ‘ ہر جماعت‘ ہر امیدوار عوام کو وعدوں کی برسات میں ہر روز سرِ شام سنایا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ 11 مئی کا سورج نوید انقلاب بن کر طلوع ہوگا‘ فلاں یا فلاں جماعت کیلئے یہ سورج ناکامی کی خبر لائے گا یا پھر فلاں جماعت کا سورج 11 مئی کو غروب ہوجائے گا۔ مراد اپنی مراد بر آنے سے ہوتی تھی اور پیغام مخالفین کیلئے شکست و ریخت لئے ہوتا تھا‘ مقصد کارکنوں کو عزم صمیم دینا اور عوام کو اپنی جانب راغب کرنا ہوتا تھا… یہ سب تو ہوچکا… اور سورج کو تو ظاہر ہے مشیت ایزدی سے طلوع ہو کر رہنا تھا‘ سو طلوع ہوا… لیکن پاکستان کی66 سالہ تاریخ کے تناظر میں یقین تو کیا گمان سے بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورج عوام کیلئے وہی ترقی‘ خوشحالی و امن کے سندیسے لایا ہو‘ جس کا یقین سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما عوام کو دلاتے رہتے تھے۔ ابتدائے عشق میں یہ بدگمانی مناسب نہیں لیکن ایک دائرے میں محدود نئے چہروں کے جھرمٹ میں چارسو پھیلی پرانی و آزمودہ صورتوں کی موجودگی میں کیسے یقین کر لیا جائے کہ آگے آگے وہی نہیں ہوگا جو ہوتا رہا ہے؟
اگر کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہوا تو انتقال اقتدار کا مرحلہ اب محض چند دنوں کے فاصلے پر ہے‘ جو توڑ جوڑ ہوگا خدا کرے کہ وہ حسب ماضی عوام کے جوڑوں کیلئے توڑ ثابت نہ ہو‘ امید کا دامن تھامے رہنا تو اہل پاکستان کے خمیر ہی کا حصہ ہے لیکن ریب و تشکیک ماضی کے تلخ تجربا کے تناظر میں ابھر رہے ہیں اور پھر امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جانے کے حوالے سے انتخابات کا مرحلہ بھی عہد رفتہ ہی کی طرح رہا‘ کوئی ”انقلابی جماعت“ عہد کہن کی ریت و روایت کو ریت تلے لانے کی مثال قائم نہ کرسکی۔ میاں نواز شریف نے اپنے فخر کا نشان ان امیدواروں کو بنایا جو دور ابتلا میں ان کا ساتھ چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) و آمر مطلق پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے میاں صاحب پر تبریٰ بھیجتے تھے‘ عمران خان بھی گندے انڈوں کو اپنی ٹھوکری میں ڈالتے ہوئے اپنے دامن پر لگنے والے داغ کو خاطر میں نہیں لائے جبکہ اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کے پاس نئے چہرے کیا آتے، یہی ان کا کمال تھا کہ جو تھے انہیں سنبھال کر رکھا اور ظاہر ہے یہ سب کے سب آزمودہ و پرانے ہیں۔ ایسے عالم میں اب منظر نامہ یہ ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں وہی شناسا چہرے نظر آرہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو اس حالت نزع تک پہنچایا۔ باالفاظ دیگر ایسا لگتا ہے کہ جو بہار آئی ہے‘ اس بہار کی بات کرنے والے شاید صرف اپنے لئے بہار کی بات کر رہے تھے سو ان کے محل، کوٹھیاں تو مہکنے لگی ہیں لیکن غریب عوام کی جھونپڑیاں توجیسی تھیں‘ ہیں اور شاید یونہی رہیں اور یوں…
فضل بہار آئی ہے لے کر رُت بھی نئی‘ شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے
خداوند کریم ایسا فضل و کرم فرمائے یا معجزہ دکھائے کہ اراکین اسمبلی نے جو دعوے انتخابی مہم کے دوران کئے تھے وہ پورے ہوں اور یہ سب کے سب توبہ تائب ہو کر اب اپنی ایسی نئی سیاسی زندگی کی شروعات کریں جو ملک و ملت کی تقدیر بدلنے کا سبب ٹھہرے… اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی و مذہبی جماعتیں ایسا سماں باندھتی ہیں کہ کارکن و عوام ان کے نعروں میں خود کو تحلیل کردیتے ہیں‘ دیوانہ وار اپنے لیڈروں کی تقلید کرتے ہیں اور شب و روز ایک کرکے انہیں ایوان اقتدار میں پہنچا دیتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد امیدواروں سے زیادہ کارکن کامیابی کے نشے میں مست نظر آتے ہیں‘ چند روز یہ سریلی کیفیت طاری رہتی ہے سیاستدان جیسے ہی کوچہٴ اقتدار پہنچ جاتے ہیں وہ ان کوچوں سے کوچ کرجاتے ہیں جن کی دھول کو وہ متبرک اور بدبو کو عطر سمجھتے تھے‘ کارکنوں کو بھی دال روٹی کی فکر ایسے آڑے ہاتھ لے لیتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ ان سے بھی کسی نے کوئی وعدہ کیا تھا… اب بھی وہی موسم ہے‘ ہارنے والوں کے کارکن تو دیوار سے ٹیک لگاکر حسرت ویاس کی دنیا میں گم سم ہیں جبکہ کامیاب ہونے والوں کے کارکن دھمال پارہے ہیں‘ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے‘ اپنی اپنی کارکردگی و فن کی مثالیں دے دے کر من من اپنا خون بڑھا رہے ہیں اور ایسے نشے سے سرشار ہیں جو چند دنوں بعد ہرن ہونے والا ہے!!! خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور درحقیقت نیا سورج طلوع ہوچکا ہے اور وہ امیدیں بر آئیں جن کے سہارے پر غریب عوام سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور ملّاؤں کے اشاروں پر ان انتخابات میں ناچتے رہے ہیں لیکن پھر وہی لیکن!! دل کا معاملہ ہے‘ جو نہیں مانتا کے اسمبلی میں جانے والے وہ ابن الوقت عناصر قوم کی تقدیر بدل دیں گے جو آج تک اپنی زندگی بدلنے کیلئے پارٹیاں بدلتے رہے ہیں!!!
مفادات پر مبنی سیاست ہی کا نتیجہ ہے کہ وسائل سے مالا مال یہ ملک آج غربت‘ بدامنی اور جہالت کی آماجگاہ بن چکا ہے جبکہ اقتدار پرست طبقات کے پاس اس قدر دولت جمع ہوچکی ہے کہ پاکستان میں رکھنے کیلئے ان کے پاس جگہ کی کمی پڑ گئی ہے اور وہ اسے دیار غیر میں رکھنے پر مجبور ہیں!!!
ہوس زر دیکھتے ہوئے لگتا یہ ہے کہ جیسے مملکت خداداد پاکستان کے حکمران طبقات کا عقیدہ یہ بن گیا ہے کہ بعد از موت بھی یہ مال و دولت ان کے کام آئے گا‘ اس لئے وہ ہر مرتبہ اپنے سیم و زر میں اضافے کیلئے ہی اقتدار میں آتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کی گئی سرمایہ کاری کا کئی گنا وصول کرتے ہیں‘ اگر ان کا عقیدہ یہ نہ ہوتا تو وہ کیونکر غریب ملک و عوام کی دولت پر یوں سانپ بن کر بیٹھے ہوتے‘ اصل رخنہ نفس کے تقاضوں سے پیدا ہوتا ہے‘ آریوں کے دماغ میں عاقبت کا تصور آگیا تھا لیکن کثرت سامان میں وہ ایسے غرق ہوگئے تھے کہ توحید کے تصور تک ان کا ذہن نہ پہنچ سکا۔ یہ جاہ و جلال اور گنجینہ لعل و گوہر ہی ہوتا ہے جو انسان کو مساوات و عدل‘ حق و سچ سے بیگانہ کردیتا ہے۔ فرعونوں کا نظریہ بھی یہی تھا کہ عطائے قدرت پر صرف ان کا حق ہے اور یہ کہ دوسری دنیا یعنی عاقبت بھی اس دنیا کی طرح ہے جہاں انسان کی ضروریات اس دنیا کی ضروریات کے مشابہ ہیں‘ چنانچہ مصر کے امراء خصوصاً فراعنہ کی قبروں میں ضروریات کا ہر ساز و سامان رکھا جاتا تھا‘ یہاں تک کہ ملکہ اور شہزادیوں کی قبروں میں سامان حسن مثلاً غازہ‘ ابٹن‘ کنگھی‘ آئینہ وغیرہ تک رکھا جاتا تھا‘ حکمرانان مصر کی قبریں تو گویا ایک قسم کا عجائب خانہ ہوتا تھا اور ہر زمانے کے تمدن کا سارا ساز و سامان ان میں یکجا کر دیا جاتا تھا‘ یہاں تک کہ غلہ اور پکا ہوا کھانا بھی رکھ دیا جاتا تھا۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ ہر فرعون کی تدفین کے بعد کفن چور باوجود جملہ احتیاطی تدابیر کے قبروں میں داخل ہو کر قیمتی اشیاء چرا لیتے تھے لہٰذا ان کفن چوروں کے ہاتھوں بے بس ہو کر ان فرعونوں نے زیر زمین قبریں تعمیر کرالیں جنہیں ہم آج اہرام مصر کے نام سے جانتے ہیں ایک فرعون خوفو کی قبر (ھرم) کی حفاظت پر اس طرح بے مثال توجہ دی گئی کہ اس ھرم میں 25 لاکھ پتھر لگائے گئے تھے۔ ہر پتھر کا وزن 50 من تھا‘ بعض کا وزن 420 من بھی تھا۔ اس زمانے میں مشینیں نہیں تھیں‘ ہر پتھر کو آدمی گھسیٹ کر لے جاتے تھے‘ یہ بیگاری مزدور بنی اسرائیلی تھے۔ اس جبری مشقت کے دوران ہزاروں مزدور ہلاک ہوئے۔ نپولین کا اندازہ تھا کہ اگر اس ھرم کے پتھروں کو نکالا جائے تو ان پتھروں سے دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی ایسی دیوار بنائی جاسکتی ہے جو پورے فرانس پر محیط ہوگی۔ 1922ء میں فرعون طوت النسخ عامون کی قبر کھو دی گئی جس سے ایسا بیش بہا خزانہ برآمد ہوا کہ دنیا حسرت زدہ رہ گئی۔ یہ طوت النسخ فرعون اس سے قبل کے فرعون اخناطون کا جانشین تھا‘ اخناطون فرعون کے دماغ میں جب خدائے واحد کا تصور آیا تو جملہ پجاری طبقے نے اسے زہر دے کر مار دیا۔ سرگزشت تاریخ کے مطابق ”طوت النسخ عامون کی زندگی اور موت“ نامی کتاب میں اس قبر سے برآمد ہونے والے سامان کی فہرست مع تصویر موجود ہے اس فرعون کی قبر سے شکار کا سامان بھی برآمد ہوا یعنی یہ شکاری فرعون دوسرے جہان میں بھی شکار کرنے کا شوق رکھتے تھے!! خدا کرے کہ اقتدار حاصل کرنے والے ہمارے نمائندے اس طرح کے شوق و ذوق سے ناآشنا ہوں۔
تازہ ترین