• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں ہم والدین سے اکثر یہ محاورہ سنا کرتے تھے کہ چھاج بولے سو بولے چھنی بھی بولے جس میں بہتر سوچھید۔ شاید ہمارے نوجوان اس محاورے سے ناواقف ہوں گے ۔ میری پوری قوم نے اس الیکشن میں سب کچھ دیکھا ، سنا اور سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش رہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن کی طرف سے 62/ اور 63 دفعات کی پابندیاں ، اخراجات پر کنٹرول، مگر حقیقت ان دونوں دفعات اور اخراجات کی حدوں سے کوسوں دور تھیں۔ الزامات کی بھرمار، اخبارات کی کٹنگ اور چینلز کی کلپنگ سے پڑھی اور سنی جا سکتی ہے کیونکہ اب کوئی چھپانا بھی چاہے تو چھپا نہیں سکتا، آدھے آدھے اخبارات کے اشتہارات تو ہم صنعت کار بھی اپنی اشیاء فروخت کرنے کیلئے برداشت نہیں کر سکتے اور 10دس منٹس کے اشتہارات وہ بھی پیک ٹائم میں۔ بعض ٹی وی چینلز 2لاکھ روپے فی منٹ وصول کرتے ہیں ان پر مسلسل کثرت سے آرہے تھے بلکہ زبردستی دکھائے جا رہے تھے ۔ مرکز صرف ایک صوبے کی کھربوں روپے کی بربادی کی داستان سنا رہا تھا ۔ گن گن کے 5سال کی گمشدہ کارکردگی کو بھولے بھالے ، سہمے سہمے عوام کو بتا رہا تھا کہ کتنا سرمایہ بڑے صوبے کے واحد تاجدار نے غریب عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے سیاسی کارکنوں اور اپنے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران پر خرچ کیا۔ سستی روٹی ، لیپ ٹاپ کی تقسیم، ٹیکسیوں سے روزگار کی فراہمی، دانش اسکول، جنگلہ بس سروس الغرض سب کی آڑ میں کرپشن ہی کرپشن بتائی جارہی تھی تو دوسری طرف اسی صوبے کے وزیراعلیٰ کا مرکز پر جوابی حملہ بے نظیر سپورٹ پروگرام، روزگار کی فراہمی، قرضوں کی آڑ میں جیالوں پر ان عنایتوں کی بھرمار آنکھ بند کر کے نوکریاں اور اب 18ہزار کم از کم تنخواہوں کا اعلان۔ اب تمام شطرنج کی پرانی چالیں نہایت چمکدار مہروں سے چلی جا چکی ہیں ۔ صرف عمران خان فیکٹر سب کے سروں پر سوار ہے، شیر، بلّا اور تیر ہی اس میدان سیاست کے فیصلہ کن مہرے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ گزشتہ5سالوں میں ملک کی معیشت کی جو درگت ان سیاستدانوں نے بنائی 60روپے سے 102روپے پر ڈالر کس نے پہنچایا۔ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں مرنے والے ہزاروں بے گناہ مسلمان پاکستانیوں کا حساب کون دے گا۔ کیا کسی لیڈر نے ان علاقوں کا دورہ کرنا بھی گوارا کیا ، کھربوں کی کرپشن میں کون کون حصہ دار تھے۔ آدھے اقتدار میں رہ کر وصول کر رہے تھے تو آدھے خاموش رہ کر وصول کر رہے تھے۔ صرف پنجاب کا بجٹ بقایا 3صوبوں سے زیادہ ہوتا ہے وہ کون کھا رہا تھا۔ IMF جس سے ہم جان چھڑا چکے تھے کو آج پھر ہم پر کس نے مسلط کیا۔ بلوچستان میں کھربوں روپے ان کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے نمائندوں میں کس نے تقسیم کر کے 5سال تک ان کی زبانوں پر تالا بندی کر کے اسلام آباد میں بیٹھ کر کیسے حکومت چلائی گئی۔ سرحد میں روز بم دھماکے ہوتے رہے، ڈرون حملے بڑھتے گئے ، بمبار ، خودکش حملے کون کراتا رہا۔ کیا کسی نے ہمدردی کے دو بول بولے۔ مرنے والوں کے گھروں میں جاکر تعزیتیں کیں مگر آج الیکشن جیتنے کے لئے سب بلند دعوے کر کے قوم سے صرف ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ قوم تبدیلی بھی چاہتی ہے مگر کیا اس قوم کو تعلیم سے دور رکھ کر تبدیلی ممکن ہے؟
جاگیرداروں، چوہدریوں، نوابوں، وڈیروں کی موجودگی میں کیا کوئی انقلاب آسکتا ہے ہرگز نہیں۔ صرف درخت کے چند پتّے جھڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایسا ہی 66سال سے ہوتا آ رہا ہے اور اب بھی کم وبیش ایسا ہی ہوگا۔
میرا کالم جب چھپے گا تو الیکشن کا نتیجہ آچکا ہو گا، صرف چند گھروں میں ماتم تو اکثر گھروں میں ڈھول کی تھاپ پر رقص ہو رہا ہوگا۔ خاکم بدہن یہ پہلی دفعہ اٹھے پڑھے لکھے نوجوان بے خود پڑے ہوں گے، کچھ الیکشن کمیشن کو کوس رہے ہوں گے تو کچھ پاکستان کے فرسودہ نظام سے شاکی ہوں گے جو اکثر برادری، لسانی، مذہبی، علاقائی توڑ جوڑ کی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔ 10پندرہ فیصد گریجویٹ ملک کی 85فیصد مندرجہ بالا طبقوں کے سامنے صرف نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوں گے۔ جب تک نظام کے ساتھ ساتھ ہم نوکریاں دینے، تنخواہیں بڑھانے ، سستی روٹیاں تقسیم کرنے ، بے روزگار ٹیکسیوں والی اسکیموں ، ٹریکٹروں کی فراہمی کے علاوہ ایک پوائنٹ ایجنڈا جس میں نہ صوبوں ، مذہبی فرقوں ، برادریوں ، لسانی نعروں سے ہٹ کر صرف اور صرف تعلیم پر تمام سیاستدان عمل پیرا ہوں گے تب ہی پاکستان اپنے اصل مقاصد کی تکمیل کر سکے گا ورنہ چند دنوں بعد عوام دیکھیں گے کہ وہ جو الیکشن کمپین کے دوران ایک دوسرے میں کیڑے نکال رہے تھے پھر ماضی کی طرح سر جوڑے بیٹھے سیٹوں کی تقسیم کر کے حکومت بنانے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہوں گے۔ قوم دیکھے گی یہ بھول جائیں گے کہ کل کے دہشت گرد ،آج کے محنت کش ،محب وطن سچے پاکستانی نظر آئیں گے۔ جوق در جوق وفود ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہے ہوں گے کہ کسی طرح اقتدار کی کرسی ان سے نہ چھن جائے اور دوسرا قابض نہ ہوجائے۔ کاش قوم یکجا ہو کر اگلے الیکشن کی تیاری کرے، صرف اور صرف تعلیم کو منزل بنا کر اور ہماری افواج پاکستان اپنا بجٹ کم کر کے تعلیم اور درسگاہوں کے حوالے کر دے پھر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کیا عمران خان خلوص کے ساتھ اس قوم کی رہنمائی کریں گے، اگر وہ الیکشن ہار جائیں تو اگلے الیکشن کی تیاری آج ہی سے شروع کریں۔ جاتے جاتے میں نگران حکومت سے درخواست کروں گا کہ پوری دنیا میں یوٹیوب دکھائی جارہی ہے مگر صرف پاکستان میں اس پر پابندی لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے 18کروڑ عوام بیرونی دنیا کی معلومات سے فیضیاب نہیں ہو رہے ہیں ۔ برائے مہربانی جاتے جاتے یوٹیوب پر سے پابندی ختم کردیں جس کے لئے عوام دلی شکر گزار ہوں گے۔ مجھے بہت سے قارئین نے یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ آپ سے شیئر کروں ۔
تازہ ترین