• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے سو سال بعد کی حیرت انگیز دنیا کے حوالے سے مغربی ماہرین کی رپورٹ ’’دی اسمارٹ تھنگز فیوچر لیونگ‘‘ میں بیان کی گئی پیشگوئیوں پر چند گزارشات پیش کی گئیں ۔ نیز عر ض کیا گیا کہ ایک صدی بعد اس کے مقابلے میں ایک دوسری ، نرالی دنیا بھی پورے قد اور شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہو گی ۔ آج اس نرالی دنیا کے خیالی احوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی اور گناہ گار دنیا نظام شمسی پر اپنا سکہ جما چکی ہو گی ، تب دوسری اور پارسا دنیا ماضی کی روایات کو سینے سے لگائے، تاریخ کے پچھواڑے رینگ رہی ہو گی۔ وہ جدید علوم کی بنا پر خلائوں کو مسخر کر رہے ہوں گے اور یہ ماضی کے التباسات سے سند یافتہ احساس برتری کے سہارے خیالی فتوحات کے پھریرے لہرا رہے ہونگے ۔جب وہ عملاً نظام شمسی عبور کر کے اگلی دنیائوں پر بھی اپنے جھنڈے لہرا رہے ہوں گے ، تب یہ خیالوں ہی خیالوں میں اسپین فتح کر رہے ہونگے ۔ جب پہلی دنیا اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے زو رپر خلا میں بستیاں بسائے گی ، علم و عمل سے تہی دوسری دنیا اپنی حماقت کی طاقت سے خلائی قلعے تعمیر کرے گی ۔ وہ خلائی جہازوں میں بیٹھ کر مریخ پر اپنے گھر بنانے جائیں گے اور یہ جہالت کے خچروں پر سوار پتھرکے دور کی طرح رواں دواں ہوں گے ۔ وہ اپنے بچوں کو سائنس کی نئی نئی جہات سے روشناس کرائیں گے اور یہ اپنے بچوں کو سائنس پر اپنے بزرگوں کے احسانات رٹائیں گے ۔ جب گمراہوں کے ناپاک پائوں ماہ و مشتری کی دھول اڑائیں گے ،ماضی کے مسافروں کی زبانیں دانش کے نام پر زمین کی دھول اڑا رہی ہوں گی ۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی دنیا اپنی دوربینوں کی مدد سے اربوں سے بڑھ کر کھربوں سیاروں کو شمار کر رہی ہو گی ، تب دوسری دنیا اپنی خوردبینوں سے پہلی دنیا کی بن بیاہی مائوں کی تعداد نوٹ کر رہی ہو گی ۔ وہ چاند پر آبادکاری میں مصروف ہوں گے اور نرالی دنیا زمین پر باہم دست و گریباں ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی بحث میں الجھی تین تین عیدیں کر رہی ہو گی ۔ جب گناہگار زیر آب ’’ببل سٹی‘‘ تعمیر کرنے کیلئے سمندر کی گہرائیوں میں اتررہے ہوں گے ، نیکو کار تب بھی ’’پہلے انسان کی ناف تھی یا نہیں‘‘ جیسی ’’علمی بحث‘‘ میں غوطہ زن ہوں گے ۔ وہاں ذاتی زندگی میں عدم مداخلت اور شخصی آزادیاں عروج پر ہوں گی اور یہاں پرائیویسی پر تین حرف بھیجتے ہوئے دخل در معقولات کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے کا خود اختیار فریضہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ انہیں پلوٹو پرزندگی کے شواہد بھی مل جائیں گے اوریہ ابھی دہشت گردی میں ملوث بیرونی ہاتھ تلاش کر رہے ہوں گے ۔ پہلی دنیا اپنے ہاں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر چکی ہوگی اور نرالی دنیا ابھی دہشت گردی کے اسباب اور اس کی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی پر باہمی اختلافات کا شکار ہو گی ۔ وہ موجودہ دور سے کہیں زیادہ فلک بوس عمارتوں کو حقیقت کر دکھائیں گے ، یہ انہیں جہاز ٹکرا کر زمین بوس کرنے کو سچ کر دکھائینگے ۔ وہ خلا میں جانے کیلئے کمرشل فلائٹس روانہ کرینٓگے یہ ان فلائٹس میں بیٹھ کر خلاسے ایک آدھ ستارہ چوری کر لائیں گے ۔اُنکے گھروں کی دیواریں ایل ای ڈی اسکرینز پر مشتمل ہوں گی اور اِ ن کے گھروں کی دیواروں پر اگلی صدی میں بھی اندھیرے راج کرینگے۔ اُنکے عالم نئی نئی کہکشائوں کی تصاویر جاری کرینگے ، اِن کے جنگجو مغویوں کو قتل کرنے کی نئی نئی تکنیکس کی ویڈیوز جاری کریں گے ۔
وہ خلائی اسٹیشن سے بھی زمین پر اپنے کروڑوں طالب علموں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر رہے ہوں گے اور یہ سو سال بعد بھی تعلیمی نصاب پر اختلافات کا شکار ہوں گے ۔ اُدھر جان لیوا بیماریاں جڑ سے اکھاڑ پھینکی جائیں گی ، اِدھر پارسائی اور خود ستائی کے بخار کا علاج بھی ممکن نہ ہو گا۔ وہ فلاح انسانیت کیلئے اپنے اثاثے عطیہ کرینگے ،یہ اپنے ’’علم کے گہواروں ‘‘ کیلئے عطیات اور چرم ہائے قربانی جمع فرمایا کریں گے ۔ وہ جدید روایات کے بانی کہلائیں گے ، یہ اپنی ’’مستحکم تہذیبی روایات ‘‘ کے دامن سے لٹک رہے ہوں گے ۔ وہ علم پرستی کے داعی ہوں گے تو یہ شخصیت پرستی کے خوگر۔ وہ ووٹ کی طاقت سے اپنے کھرے اور دیانتدار حکمران منتخب کرینگے اور یہ کمر سے تیغ آبدار لٹکائے کسی نسیم حجازی کے منتظر ہونگے ۔ وہ بنیادی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کیا کرینگے اور یہ ویلنٹائن ڈے ، فحاشی اور اختلاط مردوزن کے خلاف رفیع الشان جلوس نکالا کریں گے ۔سو سال بعد جب پہلی دنیا خاموشی سے باہم متحد ہوکر اس گلوبل ویلج پر قابض ہو گی تو اس وقت نرالی دنیا اس ’’ویلج‘‘ سے دور اپنی کچی ڈھوک پر بیٹھی اتحاد اُمہ کے ڈھول بجاتی ساری دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہو گی۔
مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد جب پہلی دنیا پر سچ کی مکمل حکمرانی ہو گی ، دوسری دنیا جھوٹ کی راجدھانی ہو گی۔وہاں قانون کی عملداری ہو گی ،یہاں حماقتوں کی اجارہ داری ہو گی ۔ وہاں اہل علم کی حکمرانی ہو گی ، یہاں انگوٹھا چھاپ راج کرینگے ۔جب وہ کرپشن پروف نظام سے فیض یاب ہو رہے ہونگے ، یہ تب بھی حیا پروف نظام میں کسی پاناما لیکس اسکینڈل پر ایک دوسرے کو ننگا کر رہے ہونگے ۔وہاں جمہوریت اور جمہوری رویے پختہ ہوں گے ، یہاں ہر پنج سال بعد نظریہ ضرورت کی زنگ آلود صندوقچی سے دیمک زدہ ’’نسخہ کیمیا‘‘ برآمد ہوگا۔ وہاں متواتر انتخابات منعقد ہوا کرینگے ، یہ برابر ریفرنڈم کرایا کرینگے ۔ وہ جمہوری رہنمائوں کی برسیاں منائیں گے ، یہ آمروں کے عرس منائیں گے ۔ وہاں منتخب عوامی نمائندوں کی چلے گی اور یہاں جعلی ڈگریوں کے سہارے دھاندلی سے برسرِ اقتدار آنے والوں کی ۔ جب پہلی دنیا میں سیاحت سب سے بڑی انڈسٹری بن چکی ہو گی ، یہاں سیاحوں سے نکاح نامے طلب کئے جا رہے ہوں گی ۔ وہاں کی فضائوں میں روشنیاں پھوٹ رہی ہوں گی ، یہاں بحرانوں کے اندر سے بحران پھوٹ رہے ہوں گے ۔ جب ان کے ہاں کرپشن کا نشان بھی مٹ جائے گا ، یہ تب بھی آف شور کمپنیوں ، سرے محلوں ،نیو یارک اپارٹمنٹوں اور لندن اور دبئی کے لگژری فلیٹوں کے مالکوں کو ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔ وہ فطرت کی قوتوں کو زیرِ پا کرینگے ،یہ مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے نت نئے حربے آزمائیں گے ۔ جب اول الذکر دنیا یقین کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت ثابت کر کے ہر نا ممکن کو ممکن کر دکھائے گی ، تب موخرالذکر دنیا تشکیک، تذبذب ، فکری الجھائو ،جذباتی ہیجان اور ڈھلمل یقین کی آخری حدوں کو چھو رہی ہو گی ۔
برادران و ہمشیرگانِ ملت ! اگر آپ بھی ہماری طرح اس نرالی دنیا کے خیر خواہ ہیں اور اس کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو آپ کو اپنا دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیوںکہ ان گزارشات کاہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایجادات پر پہلی دنیا کا اجارہ ہو گا۔ مالک حقیقی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد دوسری دنیا کے نیکو کار مائیکرو خود کش جیکٹس ،پاکٹ سائز بم ،جدیدا سکینرز کو بھی دھوکہ دے کر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار اور جدید ترین کمپیوٹرز کو بھی پچھاڑنے والے جعلی پاسپورٹس اور ویزے ایجاد کر کے پہلی دنیا کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔
تازہ ترین