• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزادکشمیر میں اگلے پانچ سال کیلئے انتخابات کاموسم شروع ہوچکاہے اور سیاسی پارٹیوں نے جلسے جلوسوں، کارنر میٹنگز اور ووٹروں سے میل ملاپ کی روایتی مہم شروع کردی ہے ، ان دنوں شاید ہی شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو یا کسی کی تکفین و تدفین، سوم اور چہلم کی رسم جس میں بڑے بڑے لیڈر یا لیڈر بننے کے شوقین اپنے لائو لشکر کے ہمراہ شریک نہ ہوتے ہوں ، بعض جلد باز کسی کی دعوت ولیمہ میں فاتحہ پڑھنے اور کسی کے قل میں مبارکباد دینے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں جسے بعض ستم ظریف کرپشن اور کمیشن کی فراوانی کے باعث ’’ بھینس‘‘ کیمپ کہنے لگے ہیں ، انتخابی ٹکٹوں کے حصول کی جنگ تیز ہو چکی ہے، جن سیاسی پارٹیوں کے سرچشمے پاکستان میں ہیں ، ان کے پارلیمانی بورڈوں کے سربراہ نوازشریف، بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان ہیں اور وہی فیصلہ کریں گے کہ کون کشمیریوں کی قیادت کا اہل ہے اور کون نہیں۔ جو پارٹیاں اس نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں مدغم نہیں ہوئیں( یا مدغم ہونے میں ناکام ہوئیں) کہ جب تک جموں وکشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، آزادکشمیر پاکستان کا حصہ نہیں اس لئے ان کا ایک تشخص قائم رہنا چاہئے وہ مقامی قیادت کے فیصلوں پر ہی گزارا کر یں گی ، اور زیادہ امکان یہی ہے کہ ہار جائیں گی، تاہم ان کیلئے یہ اچھا موقع ہوگا کہ پاکستانی سیاست کی بوقلموینوں، آویزشوں اور سازشوں سے دور رہ کر پاکستان سے اپنے قلبی تعلق کو عملی طور پر متنازعہ نہ بنائیں اور اپنا خالص ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کریں جو اس وقت ’’غیرریاستی‘‘ پارٹیوں کے آنے سے آزادی کشمیر کے مشن کو اجاگر کرنے کی بجائے کشمیریوں میں تقسیم در تقسیم ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور موقع ملے تو ’’مال‘‘ بنانے تک محدود ہوگیا ہے، انتخابی میدان میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا پلڑا دوسروں کی نسبت بھاری دکھائی دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت کے صدقے پچھلے پانچ سال سے برسر اقتدار ہے، اس مفاہمت میں کچھ دراڑیں آجانے سے وہ ن لیگ کو نیچا دکھانے کیلئے زور لگانے کے ساتھ ساتھ شور مچانے میں بھی سب سے آگے ہے۔ اس کے لیڈروں نے نکیال میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں تصادم کے دوران اپنے ایک کارکن کے جاں بحق ہونے کے افسوس ناک واقعہ کو اچھال کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کافی کوشش کی اور جوش خطابت میں یہ بھی کہہ گئے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کام نریندر مودی کر رہا ہے وہی کام نواز شریف آزادکشمیر میں کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کے اس دعوے کا کسی نے نوٹس نہیں لیا ، کوئی تو کہتا کہ حضور! مقبوضہ کشمیر میں توآزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے جسے کچلنے کیلئے مودی سرکار کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے، روزانہ اوسطاً چھ سات بے گناہ کشمیری شہید کئے جارہے ہیں جبکہ آزادکشمیر میں اقتدار کی جنگ ہو رہی ہے، اس میں ایک کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جو ایک جاں گداز واقعہ ہے مگر اس کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے کیا موازنہ ؟کیا پاکستان کو بھارت کی صف میں کھڑا کرنا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے؟ آزادکشمیر کے انتخابات میں جو جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ان میں سے جماعت اسلامی واحد پارٹی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھی سید علی گیلانی کی قیادت میں آزادی کی جنگ میں عملی طور پر سرگرم ہے، اس کے بعد کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی تنظیم بھی وہاں قائم ہے اور جہاد آزادی کا حصہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی کوئی شاخ وہاں کام نہیں کرتی، اسی لئے ان پر غیر ریاستی پارٹیاں ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ ریاستی ہیں یا غیر ریاستی مسلم کانفرنس کے علاوہ یہی تین پارٹیاں آزادکشمیر میں الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کی بڑی وجہ پاکستان سے کشمیری عوام کی لازوال محبت اور قلبی وابستگی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں کلین سوئپ کرے گی اور مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروا دے گی۔ لگتا تو نہیں، پر شاید۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) ایک بڑی قوت ہے جو پاکستان میں برسراقتدار ہے، صرف ایک موقع کے سوا ، جب سردار عبدالقیوم خان کی قیادت میں مسلم کانفرنس، پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود جیتی تھی۔ آزادکشمیر میں وہی پارٹی فتح یاب ہوتی ہے جو پاکستان میں حکمران ہو، اس مرتبہ یہ برتری مسلم لیگ ن کو حاصل ہے ، اس کے علاوہ اسے سردار سکندر حیات جیسے زیرک سیاستدان کی رہنمائی بھی حاصل ہے جو برادریوں کی سیاست میں جیتنے والے گھوڑوں کی پرکھ سب سے زیادہ رکھتے ہیں۔ ان عوامل کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) پیچھے رہ جائے،لگتا تو نہیں پر شاید، تحریک انصاف زیادہ تر پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس سے ٹوٹے ہوئے لوگوں کا اجتماع ہے، جو اپنے اپنے علاقوں میں خاص اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ہو سکتاہے کوئی اپ سیٹ دیکھنے میں آجائے۔لگتا تو نہیں،پر شاید۔مسلم کانفرنس ایک بڑی قوت تھی ، پہلے اس کے بطن سے مسلم لیگ ن نے جنم لیا، پھر تحریک انصاف نے اس کے بندے اچک لئے، اب اس کا انحصار ملٹری ڈیمو کریسی پر ہے یا پیپلزپارٹی سے انتخابی اتحاد پر ۔ ملٹری ڈیمو کریسی کاتو دور دور تک کوئی اتاپتہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کو اپنی پڑی ہوئی ہے، ایسے میں مسلم کانفرنس جو تاریخی طور پر جموں وکشمیر کی جدوجہد آزادی کی علامت ہے، اپنی دیرینہ حریف پیپلزپارٹی کی ممکنہ مدد سے ایوان اقتدار میں پہنچ جائے، لگتا تو نہیں پر شاید۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ کے حوالے سے حریت کانفرنس کی دوسری پارٹیوں کی طرح کشمیری عوام کی امیدوں اور آرزئوں کا مرکز ہے مگر آزادکشمیر کی 49رکنی اسمبلی میں اسے بمشکل ایک آدھ سیٹ مل جاتی ہے، اس مرتبہ شاید یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے، لگتا تو نہیں پر شاید۔ جہاں تک لبریشن لیگ ، لبریشن فرنٹ اور دلوں میں آزادی کی تڑپ رکھنے والی دوسری پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ صرف تڑپ ہی سکتی ہیں۔ برادریوں کی سیاست کے اس خطے میں لگتا نہیں کہ اقتدار تک رسائی ان کا مقدر بنے۔
تازہ ترین